جہانِ مسیحا جلد 11
جہانِ مسیحا میگزین
مجلس مشاورت
فہرست
سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”بے شک اللہ جل شانہٗ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں، شیخی کی باتیں کرتے ہیں، خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کی تعلیم دیتے ہیں۔‘‘ حضرت ابو سعید خدریؓ حضور اکرمﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ”قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو ایک جگہ جمع فرمائے گا تو جہنم کی آگ ان کی جانب بڑھے گی اور اس شدّت سے بڑھے گی کہ جو فرشتے اس پر متعین ہیں ان کے روکنے سے بھی نہ رُکے گی۔ جب اس سے پوچھا جائے گا کہ ایسا کیوں ہے تو وہ کہے گی کہ میرے رب کی عزّت کی قسم یا تو مجھے چھوڑ دو میں اپنے جوڑی داروں (دوستوں) کو نگل لوں ورنہ میں سب پر چھا جائوں گی۔ وہ پوچھیں گے کہ تیرے جوڑی دار کون ہیں؟ تو کہے گی کہ ہر متکبر اور ظالم۔ اس کے بعد وہ اپنی زبان نکالے گی اور ہر متکبر و ظالم کو چُن چُن کر اپنے پیٹ میں ڈال لے گی۔ اپنا یہ عمل مکمّل کرکے وہ پیچھے ہٹ جائے گی۔ اس کے بعد اسی طرح دوبارہ زور کرکے آئے گی اور کہے گی کہ مجھے اپنے جوڑی داروں کو لینے دو۔ جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تیرے جوڑی دار کون ہیں، تو وہ کہے گی ”ہر اکڑنے والا، ناشکری کرنے والا‘‘ اور پہلے کی طرح ان کو بھی چُن چُن کر اپنی زبان کے ذریعے اپنے پیٹ میں ڈال لے گی۔ پھر اسی طرح تیسری بار شدّت سے اُٹھے گی اور اپنے جوڑی داروں کا مطالبہ کرے گی اور جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تیرے جوڑی دار کون لوگ ہیں؟ تو وہ اس مرتبہ کہے گی کہ ”ہر فخر و غرور کرنے والا‘‘ اور ان کو بھی چُن چُن کر اپنے پیٹ میں ڈال لے گی اس کے بعد لوگوں کا حساب و کتاب ہوتا رہے گا۔ حضرت مجاہدؒ سے جب متکبر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ”اس حدیث میں متکبر سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کی عطا کی ہوئی چیزوں کو گن گن کر رکھتا ہے اور اللہ جل شانہٗ کا شکر ادا نہیں کرتا۔‘‘ حضرت جابر بن سلیم ہجمیؓ فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی ایک گلی میں حضورﷺ سے میری مُلاقات ہوگئی میں نے آپ کو سلام کیا اور لنگی کے متعلق مسئلہ دریافت کیا۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا پنڈلی کے موٹے حصے تک ہونی چاہیے اور اگر تجھے اتنی اُونچی پسند نہ ہو تو تھوڑی اور نیچے تک سہی اور یہ بھی پسند نہ ہو تو ٹخنوں کے اُوپر تک اور یہ بھی پسند نہ ہو تو (آگے گنجائش نہیں) اس لیے کہ اللہ جل شانہٗ متکبر فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے (اور ٹخنوں سے نیچے کی لنگی یا پاجامے کو لٹکانا تکبر میں داخل ہے)۔
فخر و غرور و تکبر صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے کیوں کہ وہی قادرِ مطلق ہے، تمام بزرگیاں، تمام رفعتیں اور تمام بڑائیاںصرف اسی کو حاصل ہیں، وہی اپنی مخلوق کو تمام نعمتوں ور رحمتوں سے نوازتا ہے، صرف اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بڑائی اور برتری کا اظہار کرے۔ کائنات کی ہر شے اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہے جو اپنے پیدا کرنے والے کے رحم و کرم کے طفیل زندہ ہے۔ مخلوق کا فرضِ اوّلین سرِ نیاز کو خم کرنا ہے، اسے کسی صورت یہ زیبا نہیں کہ فخر و غرورکی روش پر قدم رکھے کیوں کہ ایسا کرنا صریحاً ظلم ہے اور اللہ تعالیٰ کی سنّت یہ ہے کہ وہ کسی ظالم و متکبر کو معاف نہیں کرتا۔ اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے بھی عاجزی، انکساری اور صبر و شکر کے راستے پر چلنے کی تلقین و ہدایت فرمائی ہے۔
اِک پَل میں لاکھ عالم امکاں بسائے کون؟
مہر مہہ و نجوم میں تنویر تیری ہے
یہ روز و شب ہیں تیرے سوا جگمگائے کون؟
تیری مہک سے مہکا ہوا ہے مشام جاں
سو طرح خوشبوئوں میں گلوں کو بسائے کون؟
تُونے ہی کرمِ سنگ کو بخشی ہے زندگی
تیرے سوا حیات کا پیغام لائے کون؟
سمٹا ہوا ہے قطروں میں اِک بحرِ بیکراں
ذرّوں میں ایک دشت کا عالم دکھائے کون؟
اِک شرق سے ہیں سینکڑوں خورشید جلوہ گر
اِک تخم میں ہزار شجر لہلہائے کون؟
ہادی بھی اسمِ پاک ہے تیرا، ترے سوا
بھٹکے ہوئوں کو راہِ ہدایت دکھائے کون؟
ہر آرزو میں اپنی تجھی سے رجوع ہے
تابشؔ کا چارہ ساز ہو تیرے سوائے کون؟
نعمتیں دیکھ رہی تھیں بڑی حیرانی سے
روزہ افطار کیا آپﷺ نے جب پانی سے
ہے کوئی اور زمانے میں دکھائو تو سہی
جو فقیری کو ملا سکتا ہو سلطانی سے
بیٹھ جاتا ہوں تریؐ مدح سرائی کرنے
جب مرا سامنا ہوتا ہے پریشانی سے
بادشاہوں کے مقدر بھی کہاں ایسے ہیں
جیسا منصب مُلّا سلمانؓ کو دربانی سے
جسے دیکھو وہ غلامی پہ تُلا بیٹھا ہے
قیمت جنس بھی گھٹتی نہیں اَرزانی سے
داغ سب دھو دیے اُس نے مری ناکامی کے
مجھ کو عزّت جو ملی اُنؐ کی ثنا خوانی سے
جہانِ مسیحا کا گیارواں شمارہ حاضرِ خدمت ہے مگر اس تاسف کے ساتھ کہ اس جریدہ کا جس طبقہ کے لیے اجرا کیا گیا تھا اُس کی ہی نمائندگی اس میں بہت کم ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے یہ بات جہاں میرے سوچنے کی ہے وہاں آپ کو بھی اس پر غور کرنا ہے۔
جہانِ مسیحا ادبی فورم کا اوّلین مقصد ہی یہی ہے کہ میڈیکل کے شعبے سے وابستہ اہلِ علم و قلم کی ’جہانِ مسیحا‘ میں زیادہ سے زیادہ نمائندگی ہو اور یہ معلوم ہوسکے کہ ڈاکٹرز جہاں انسانی صحت کے تحفّظ و بحالی کے لیے برسرِ عمل ہیں وہاں وہ انسانوں کی رُوحانی صحت کے لیے بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو روبہ عمل لاتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کی ترقّی و خوشحالی میں جسمانی اور رُوحانی صحت بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ’جہانِ مسیحا‘ کو اپنی علمی، ادبی اور شعری تخلیقات زیادہ سے زیادہ ارسال کریں تاکہ یہ جریدہ آپ کا نمائندہ جریدہ بن سکے۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ ’جہانِ مسیحا ادبی فورم‘ کی ہی نہیں آپ کی بھی ایک قابلِ فخر کامیابی ہوگی۔ شکریہ
سیّد جمشید احمد
(ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو آفیسر)
اُردو ہماری قومی زبان ہے۔ یہ وہ اعلانیہ ہے جس کی تاریخ تقریباً پونے دوسو سال پر محیط ہے۔ پہلے یہ اعلان متحدہ ہندوستان میں کیا اجتا رہا اور اَب ستّر بہتّر سال سے مسلسل پاکستان میں کیا جارہا ہے۔ لیکن یہ اعلان صرف ایک مطالبے کی صورت میں ہمارے درمیان زندہ ہے مگر اس پر عملدرآمد آج تک نہیں ہوسکا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اس امر پر ہمیشہ زور دیا کہ اُردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی لیکن قائداعظم کے فیصلے کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے کبھی سرکاری اختیارات کو استعمال نہیں کیا گیا جس کی بنا پر پاکستان میں اُردو رابطہ کی زبان کے طور پر تو مقبول ہوگئی لیکن سرکاری دفاتر اور بالادست طبقے کے درمیان انگریزی پروان چڑھتی گئی اور ہمارے معاشرے میں جو بالادستی انگریزی کو حاصل ہے وہ عیاں ہے۔ ہر طرف نہ صرف انگریزی لکھی اور پڑھی جارہی ہے بلکہ انگریزی کو ہی قومی زبان تصور کرلیا گیا ہے۔ اُردو کو پس پشت دھکیلنے کی اس کوشش میں اُردو رسم الخط زوال آمادہ ہے۔ کسی حد تک رومن رسم الخط کو اختیار کرلیا گیا ہے۔ خصوصاً نئی نسل تو اسی رسم الخط کو اظہار کے لیے مناسب سمجھنے لگی ہے۔ کسی مُلک کی قومی زبان کی ترویج و فروغ کے لیے مناسب و مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا پاکستان میں کبھی ایسی منصوبہ بندی کی سنجیدگی سے ضرورت محسوس کی گئی؟ شاید نہیں، صرف ادارے قائم کیے گئے۔ اُردو زبان کے نفاذ و اطلاق پر توجہ نہیں دی گئی۔ لہٰذا یہ سوال ستّر بہتّر سال سے محب وطن عناصر کے ذہنوں میں زندہ ہے اور اپنے جواب کا منتظر ہے۔ کیا ہم اس سوال کا جواب کبھی دے سکیں گے یا پھر زبانی کلامی یہی کہتے رہیں گے کہ اُردو ہماری قومی زبان ہے!
خواجہ رضی حیدر
ہمارے ممدوح ڈاکٹر منظور احمد نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں مسلمانوں کے حالات پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے، تاہم انہوں نے انٹرویو میں اہم ترین بات یہ کہی ہے کہ مسلمان ایک قسم کے مابعد الطبیعیاتی خوف میں مبتلا ہیں جو انہیں دنیا کی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہونے دیتا۔ حسب سابق ہم اپنی کاہلی اور بدسلیقگی کی وجہ سے انٹرویو سنبھال کر نہ رکھ سکے، اس لیے ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ڈاکٹر صاحب کے افلاظ یہی تھے، لیکن ان کی باتوں کا مفہوم یقیناً یہ تھا اور اس مفہوم سے یہ بات عیاں تھی کہ ڈاکٹر صاحب نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو لکیر کا فقیر سمجھتے ہیں بلکہ انہیں مسلمانوں کی اس روش پر دکھ بھی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان مابعد الطبیعیاتی خوف سے نکلیں، لکیر کے فقیر نہ رہیں۔
اگرچہ ڈاکٹر صاحب نے مابعد الطبیعیاتی خوف کی وضاحت نہیں کی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان واقعتاً کسی مابعد الطبیعیاتی خوف میں مبتلا ہیں اور کیا وہ ابھی تک لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں؟ ان سوالات پر غور سے پہلے آئیے سلیم احمد کی نظم ’مشرق ہارگیا ہے‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ کرتے ہیں
کپلنگ نے کہا تھا “
مشرق، مشرق ہے
اور مغرب، مغرب ہے
اور دونوں کا ملنا ناممکن ہے
لیکن مغرب، مشرق کے گھر، آنگن میں آپہنچا ہے
میرے بچوں کے کپڑے لندن سے آتے ہیں
میرا نوکر بی بی سی سے خبریں سنتا ہے
میں بیدل اور حافظ کے بجائے
شیکسپیئر اور رلکے کی باتیں کرتا ہوں۔
ہماری خواہشیں، آرزوئیں اور تمنائیں بھی مغرب سے درآمد ہورہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ انسانوں کی غذا مشکل سے بدلتی ہے، مگر اب ہم کے ایف سی اور میکڈونلڈ کے زمانے میں سانس لے رہے ہیں۔ پلائو اور قورمہ کھانے والے برگر اور پیزا کھا رہے ہیں اور نہ صرف کھا رہے ہیں بلکہ انگلیاں چاٹ رہے ہیں۔ ہمارا سیاسی نظام مانگے کا ہے، اقتصادی نظام بھی مغرب سے آیا ہے، سائنس ہماری نہیں، ٹیکنالوجی ہماری نہیں۔ اس کے باوجود بھی ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کو مابعد الطبیعیات خوف میں مبتلا محسوس کرتے ہیں حالاں کہ ساری شہادتیں اس امر پر دال ہیں کہ مسلمان مابعد الطبیعیات کے خوف کے بجائے طبیعیات کی کشش میں مبتلا ہیں۔ مسلمان فقیر ضرور ہیں لیکن لکیر کے فقیر نہیں، بلکہ وہ فقیر ہیں جو کساسہ گدائی لیے گھومتا ہے۔ اگر ایسا ہے اور یقیناً ایسا ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر ڈاکٹر صاحب کی بات کا مفہوم کیا ہے؟
یہ ٹھیک ہے کہ مسلمان بہت بدل گئے ہیں، بہت بگڑ گئے ہیں۔ لیکن ان کا بگاڑ ایسا نہیں کہ وہ اُصول کو اُصول ماننے سے بھی انکار کردیں۔ کروڑوں مسلمان نماز نہیں پڑھتے لیکن وہ یہ نہیں کہتے کہ نماز پڑھنی ہی نہیں چاہیے یا یہ کہ نماز کی ضرورت نہیں۔ مسلمان سود لیتے اور دیتے ہیں لیکن وہ سود کو حرام سمجھتے ہیں۔ اگرچہ سود کی تاویلات کرنے والے بھی پیدا ہوگئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ قرآن میں جس سود کا ذکر ہے وہ کچھ اور ہے لیکن ایسے لوگ مسلم معاشروں میں ہنوز اجنبی ہیں اور مسلمانوں کا سواداعظم ان کی بات پر کان نہیں دھرتا۔ اس تناظر میں ڈاکٹر صاحب اور ان جیسے دانشوروں کی خواہش یہ نظر آتی ہے کہ مسلمان اصولوں سے بھی بیگانے ہوجائیں اور اگر بیگانے نہ ہوں تو کم ازکم اس ضمن میں عقلِ جزوی (Reason) کو اتھارٹی مان لیں تاکہ ہر طرح کی تاویل کی راہ ہموار ہوجائے اور کوئی پیمانہ اور معیار باقی نہ رہے، اس لیے کہ میری عقل کا پیمانہ کچھ اور ہوگا اور ڈاکٹر صاحب کی عقل کا پیمانہ کچھ اور۔ لیکن یہ بات کھل کر نہیں کہی جاسکتی… معاشرے کا خوف اس قسم کی باتوں کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ تاہم ایسے لوگوں کے ہاتھ میں مولوی اور ملا کا حربہ آگیا ہے۔ چوں کہ اسلام پر اعتراض نہیں کرسکتے اس لیے مولوی، ملا پر نکتہ چینی ہوتی ہے۔ مولوی، ملا اسلام کی بڑی محدود تشریح و تعبیر کررہے ہوں گے اور اس سے یقیناً دین کو نقصان ہورہا ہوگا لیکن ان کی تشریح و تعبیر سے تو اسلام ہی باقی نہیں رہے گا۔ مغرب میں عیسائیت کے ساتھ یہ سانحہ عرصہ ہوا پیش آچکا ہے، دیگر مذاہب کی صورت حال بھی کم و بیش یہی ہے۔ صرف مسلمان ہیں جو اپنے دین کے اصولوں پر اصرار کررہے ہیں اور اس لیے وہ مغرب کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر منظور نے جس چیز کو مابعد الطبیعیاتی شعور ہے اور جب تک مسلمانوں میں یہ شعور باقی ہے تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود مسلمانوں کے حال اور مستقبل سے مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
مسلمان اگر اصولوں پر اصرار کررہے ہیں تو یہ کوئی اتفاق امر نہیں، یہ اسلام کے آخری پیغام ہونے کی حقیقت اور اسلام کی جامعیت کا اعجاز ہے۔ جب تک وحی کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، ملتیں اصولوں سے بے نیاز ہوسکتی تھیں لیکن اب جب کہ نبوت کا در ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے اور اصول دہرائے نہیں جائیں گے تو آخری امت اصولوں سے غیر معمولی وابستگی کا ثبوت ضرور دے گی۔
اسلام کی جامعیت کا معاملہ یہ ہے کہ کبھی اخلاقی صورت حال مسلمانوں کے تحرک کا ذریعہ بنتی ہے، کبھی سیاسی پہلو انہیں ان کے وجود کا احساس دلاتا ہے… اور مسئلہ یہ ہے کہ ہر چیز کا اصل اصول ایک ہے، سرچشمہ ایک ہے اور یہ سرچشمہ ایسا ہے کہ تاریخی تجربے کو بھی پھلانگ جاتا ہے۔
منہ اندھیرے جگا کے چھوڑ گئی
ایک صبح جمال کی آواز
دن سے فرصت کبھی ملے تو سنو
شام کا ساز، رات کی آواز
(احمد مشتاق)
جو کچھ تم نے لکھا، یہ بے دردی ہے اور بدگمانی معاذ اللہ، تم سے اور آزردگی! مجھ کو اس پر ناز ہے کہ میں ہندوستان میں ایک دوست صادق الولا رکھتا ہوں، جس کا ہر گوپال نام اور تفتہ تخلص ہے۔ تم ایسی کون سی بات لکھو گے کہ موجب ملال ہو؟ رہا گماز کا کہنا، اُس کا حال یہ ہے کہ میرا حقیقی بھائی کُل ایک تھا کہ وہ تیس برس دیوانہ رہ کر مرگیا، مثلاً وہ جیتا ہوتا اور ہوشیار ہوتا اور تمہاری برائی کہتا تو میں اس کو جھڑک دیتا اور اس سے آزردہ ہوتا۔ بھائی! مجھ میں کچھ اب باقی نہیں ہے۔ برسات کی مصیبت گزر گئی لیکن بڑھاپے کی شدت بڑھ گئی۔ تمام دن پڑا رہتا ہوں، بیٹھ نہیں سکتا، اکثر لیٹے لیٹے لکھتا ہوں۔ معہذا یہ بھی ہے کہ اب مشق تمہاری پختہ ہوگئی، خاطر میری جمع ہے کہ اصلاح کی حاجت نہ پائوں گا۔ اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ قصائد سب عاشقانہ ہیں، بہ کارِ آمدنی نہیں۔ خیر، کبھی دیکھ لوں گا، جلدی کیا ہے؟ تین بات جمع ہوئیں: میری کاہلی، تمہارے کلام کا محتاج بہ اصلاح نہ ہونا، کسی قصیدے سے کسی طرح کے نفع کا تصور نہ ہونا۔ نظر ان مراتب پر، کاغذ پڑے رہے۔ لالہ بالمکند بے صبر کا ایک پارسل ہے کہ اس کو بہت دن ہوئے، آج تک سرنامہ بھی نہیں کھولا۔ نواب صاحب کی دس پندرہ غزلیں پڑی ہوئی ہیں
ضعف نے غالبؔ نکمّا کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
یہ قصیدہ تمہارا کل آیا۔ آج اس وقت کہ سورج بلند نہیں ہوا، اس کو دیکھا، لفافہ کیا، آدمی کے ہاتھ ڈاک گھر بھجوایا۔
نومبر 25, 1862ء
! بھائی
آج اس وقت تمہارا خط پہنچا۔ پڑھتے ہی جواب لکھتا ہوں۔ زرِسہ سالۂ مجتمعہ ہزاروں کہاں سے ہوئے! سات سو پچاس روپیے سال پاتا ہوں۔ تین برس کے دو ہزار دو سو پچاس ہوئے۔ سو روپیے مجھے مدد خرچ ملے تھے، وہ کٹ گئے۔ ڈیڑھ سو روپیے متفرقات میں گئے۔ رہے دوہزار روپیے، میرا مختار کار ایک بنیا ہے اور میں اُس کا قرض دارِ قدیم ہوں۔ اب جو وہ دو ہزار لایا، اُس نے اپنے پاس رکھ لیے اور مجھ سے کہا کہ میرا حساب کیجیے۔ سات کم پندرہ سو اس کے سود مول کے ہوئے۔ قرض متفرق کا اُسی سے حساب کروایا۔ گیارہ سو کئی روپیے وہ نکلے، پندرہ اور گیارہ چھبیس سو ہوئے۔ اصل میں، یعنی دوہزار میں چھے سو کا گھاٹا۔ وہ کہتا ہے پندرہ سو میرے دے دو، پانسو سات روپیے باقی کے تم لے لو۔ میں کہتا ہوں متفرقات گیارسو سو چُکا دے، نو سو باقی رہے، آدھے تو لے، آدھے مجھ کو دے۔ پرسوں چوتھی کو وہ روپیہ لایا ہے، کل تک قصہ نہیں چُکا۔ میں جلدی نہیں کرتا۔ دو ایک مہاجن بیچ میں ہیں، ہفتہ بھر میں جھگڑا فیصل ہوجائے گا۔ خدا کرے یہ خط تم کو پہنچ جائے۔ جس دن برات سےپھر کر آئو، اُسی دن مجھ کو اپنے ورودِ مسعود کی خبر دینا۔ والدعا۔
شنبہ ششم مئی 1860ء ہنگامِ نیم روز
غالبؔ
ڈاکٹر سیّد مُحمّد اسلم (۱۹۳۱۔۲۰۱۸) کی تالیف کردہ طبّی لغت (Medical Dictionary) میں انگریزی الفاظ و اصطلاحات (Words and Terminology)کے عربی، فارسی اور اُردو متبادل(Arabic, Persian and Urdu Equivalents) فراہم کیے گئے ہیں۔ دو جلدوں پر مشتمل اس ضخیم لغت کو جامعہ کراچی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ نے ۲۰۱۸ میں شائع کیا۔دونوں جلدوں کے کُل صفحات کی تعداد۱۵۲۶ ہے۔ہر صفحے پر تین کالم موجود ہیں جن میں کم وبیش ۳۵ الفا ظ کے معنی دیے گئے ہیں جس کے بعد ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس طبّی لغت میں ۵۳۰۰۰الفاظ و اصطلاحات کے معنی درج کیے گئے ہیں۔
لغت نگار نےانگریزی الفاظ کی صراحت کے لیے پہلے عربی، پھر فارسی اور آخر میں اُردو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ عربی اور فارسی کے لیے بالترتیب (ع) اور (ف) کی علامتیں استعمال کی گئی ہیں۔ اندراجات/مدخل (Source Words)کی اس ترتیب کی بنا پر اسے ’’انگریزی۔ سہ لسانی لغت‘‘ کہنا درست ہوگا۔لغت نگار نے اپنی وضع کردہ اس ترتیب سے بھی متعدد جگہوں پر انحراف کیا ہے یعنی متعدد انگریزی الفاظ و اصطلاحات کی صراحت میں عربی متبادل سرے سے فراہم ہی نہیں کیے گئے یعنی کہیں صرف فارسی اور اُردو صراحتیں تحریر کی گئی ہیں اور کہیں عربی اور فارسی کا سرے سے پتا ہی نہیں یعنی صرف اُردو الفاظ ہی تحریر کیے گئے ہیں۔
لغت نویسی جیسے حساس اور تکنیکی کام میں ترتیب کا یہ انتشار کسی صورت پسندیدہ نہیں۔ایسا صرف ان ہی علمی روایات میں ممکن ہے جہاں ادارت اورنشرو اشاعت جیسے شعبہ جات ارتقا کا مظہر نہیں یعنی ان اہم شعبہ جات سے شائع ہونے والی چیزوں میں غلطیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ جامعہ کراچی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ سے یہ لغت۲۰۱۸ میں دو جلدوں میں شائع ہوئی جہاں اس طبّی لغت کو درست انداز میں چھا پنا چاہیے تھا۔ اُردو میں لغت کے مرتب یا مولف کےلیے الفاظ رائج ہیں۔ طبّی لغت کے مرتّب کو مصنّف لکھا گیا ہے۔ حصہ دوم کو یوں ’’حصہ دوئم‘‘ لکھا گیا ہے۔سر ورق سے پتا نہیں چلتا کہ لغت دو لسانی ہے یا سہ لسانی یعنی کن زبانوں کے الفاظ کے لیے ترتیب دی گئی ہے۔ لغت کا سرورق جب اس درجے تشنہ ہو تو لغت کے سیکڑوں اندرونی صفحات میں مختلف نوع کے انتشار دُور کرنے کے لیے کون پتا مارے۔
لغت نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ لغت اور انسائیکلوپیڈیا کے درمیان واضح فر ق سمجھتا ہو۔کسی لفظ یا اصطلاح کے بارے تفصیل فراہم کرنا انسائیکلوپیڈیا میں تو ممکن ہے لیکن لغت میں اس کے لیے گنجائش نہیں۔ طبّی لغت میں ہیپا ٹائٹس انفیکشس اکیوٹ (Hepatitis Infectious Acute) کے سامنے جو معلومات رقم کی ہیں وہ غیر ضروری طور پر طویل ہیں یعنی لغت نگار نے سوزش ِ جگر کے اسباب،سوزش جگر تمام دنیا میں پھیلاو،سوزش جگر کا حال و احوال، سوزش جگر الف،سوزش جگر ب،سوزش جگر ج،سوزش جگر د، سوزش جگرھ، سوزش جگر کا کن افراد کو خطرہ ہے،کیا سوزش جگر کا کوئی علاج ہے؟سوزش جگر کے نتائج،سوزش جگر کے سدباب کے لیے اقدامات جیسے عنوانات کے تحت تفصیل فراہم کی ہے جو قطعی مطلوب نہیں۔
لغت نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصطلاح سازی پر بھی توجہ دے۔ طبّی لغت میں جہاں تک اُردو الفاظ کا تعلق ہے اس چیز کا فقدا ن دکھائی دیتا ہے۔عربی اور فارسی زبان کی ڈھلی ڈھلائی اصطلاحات تو اس لغت میں ملتی ہیں لیکن اُردو کے ضمن میں لغت نگار نے توجہ نہ دی۔ بہ قول باباے اُردومولوی عبدالحق مکھی پر مکھی نہ ماری جائے۔ مولوی عبدالحق نے ’’فرہنگ اصطلاحاتِ پیشہ وراں‘‘ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ ’’جب سے ہم نے صنعت و حرف سے بے رُخی کی ہم اپنے لفظ بھی بھول گئے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی جگہ بھدے اور ثقیل الفاظ نے لے لی۔یہ سب ہماری غفلت اور موجودہ طرزِ تعلیم کی وجہ سے ہوا۔مثلاً فن معماری کو لیجیےہمارے انجینیئریا تو انگریزی کالجوں کے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں یاولایت سے تعلیم پاکر آتے ہیں۔ ان کی زبان پر انگریزی اصطلاحیں چڑھی ہوتی ہیں۔جو کتابوں میں پڑھا وہی ان کی زبان پر ہوتا ہے۔اس معاملے میں تھوڑا بہت قصور مترجمین کا بھی ہے ۔ ایسا لفظی ترجمہ کردیتے ہیں جو ٹھیک نہیں بیٹھتے۔ شمس العما مولوی علی بلگرامی نے لیبان کی فرانسیسی کتاب کا ترجمہ کیاجو ترجمہ بہت اچھا ہے۔ اس میں ایک جگہ Horse shoe archکا لفظ آیا ہے۔انھوں نے اس کا ترجمہ ’’نعل اسپ محراب‘‘ کردیا ۔ بالکل لفظی ہے۔اصطلاح نہیں۔اس کو مکھی پر مکھی مارنا کہتے ہیں۔ جب دلی کے ایک پرانے معمار سےایسی محراب کی تصویرکھینچ کر پوچھا کہ اسے کیا کہتے ہیں تو اس نے کہا کہ’’گھڑ نعل‘‘۔ یہ ہے اصطلاح۔‘‘
اُردو میں دیگر اصنافِ ادب کی طرح شعبہ طب جیسے نازک موضوع پر لغت کی اشاعت میں جلد بازی کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ جلدبازی کی یہ صورتِ حال اس وقت زیادہ معیوب نظر آتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اُردو میں لغات کی ترتیب و تالیف کا کام دو صدیوں سے جاری ہے۔اس طویل عرصے میں ہم ایسے تخصیصی شعبہ جات کی تعمیر یا افراد کی تربیت میں ناکام رہے ہیں جو لغت نویسی جیسے اہم موضوع پرتکنیکی ضرورتوں کو پورا کرتے ۔
زیر تبصرہ طبّی لغت میں ڈاکٹر اسلم کی جانب سے ’’عرضِ مرتب‘‘ یا ’’عرضِ مولف‘‘ کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔ طبّی لغت کے قارئین اگر یہ جاننا چاہیں کہ لغت مذکور کے محرکات و عوامل کیا رہے تو ناممکن ہوگا۔ اسی نو ع کی دیگر معلومات بھی ’’عرضِ مرتّب‘‘ نہ ہونے کے باعث معلوم نہیں کی جاسکتیں۔ مثال کے طور پر مولف کے ساتھ اس کام میں کون کون شریک رہا ؛مولف کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؛ الفاظ و اصطلاحات کے ضمن میں درپیش مشکلات کا کس طرح حل تلاش کیا گیا؛ اُردو میں پہلے سے موجود شعبہ طب کے الفاظ و اصطلاحات کے سرمائے سے کس حد تک فائدہ اُٹھایاگیا؛ اس سرمائے کے بارے میں مولف کے کیا تحفظات رہے؛مولف نے اس کا م کا آغاز کب کیا؟ اس کام کی تکمیل کب ہوئی؟ ؛کسی بھی انگریزی مدخل (Source Word) کے سامنے صراحت پیش کرنے کے کون سے اصولوں کو ترجیح دی گئی اور کیوں؟سہ لسانی صراحتوں کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟
طب کا شعبہ نہ صرف توسیع پذیر ہے بلکہ کسی ایک شخص کے لیے اس شعبے کی تمام شاخوں کا علم رکھنا بھی آسان نہیں۔ اس صورتِ حال میں طبّی لغت کے کسی بھی لغت نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیگر ماہرینِ طب سے بھی رابطہ استوار کرے اور کسی بھی لفظ و اصطلاح کے لیے مشورے کے بعد متبادل فراہم کرے۔دیگر ماہرین کے مشوروں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے طب کے ان لغت نویسوں کا کام زیادہ مشکل ہوجاتا ہے جو ایک زبان سے زیادہ زبانوں پر مشتمل لغات ترتیب دیتے ہیں۔ لغت نویسی جیساٹیڑھا کام اس وقت زیادہ مشکل ہوجاتا جب یہ کسی خاص شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔ باباے اُردو مولوی عبدالحق جیسی زبان دان اور متحرک ہستی بھی ’’فرہنگِ ِاصطلاحاتِ علمیہ‘‘ کے مقدمے میں تحریر کرتے ہیں کہ وہ کس طرح ایک ایک لفظ اور اصطلاح کے لیے موزوں افراد سے رابطہ کرتے تھے اور وہ افراد بھی مولوی صاحب کی مدد فرماتے تھے ۔
یہاں ویبسٹر ز نیو ورلڈ میڈیکل ڈکشنری کے تیسرے ایڈیشن (Webster’s New World Medical Dictionary) کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔لغت مذکور کو ترتیب دینےمیں ایڈیٹر، معاون ایڈیٹر،ادارتی عملےاورسو سے زائدمعاون مصنّفین وماہرین (Contributing Authors) براے شعبہ ہائے طب نے حصہ لیا جس کے بعد مذکورہ لغت کایہ دعویٰ درست معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شامل معلومات ماہرینِ شعبہ طب کی جانب سے ترتیب کردہ (Physian-produced)ہے۔ اس لغت کے ایڈیٹر نے دیباچے (Forward) میں لکھا ہے کہ ’’طب کا شعبہ متعد د سمتوں میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے اس شعبے کے الفاظ و اصطلاحات میں تسلسل سے اضافہ اور تبدیلی واقع ہورہی ہے۔ اس لیے آج عوام اور ماہرینِ طب(Providers of Health Care) کے درمیان معلومات کی درست ترسیل کے لیے ایک معیاری اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ طبّی لغت کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔‘‘
: الفاظ کی صراحت
جہاں تک اُردو صراحتوں کا تعلق ہے طبّی لغت میں انداز بالعموم ملتا ہے کہ مولفِ لغت نے کسی بھی انگریزی لفظ کا اُردو متبادل پہلے رقم کیا ہے بعد میں اس لفظ کی صراحت کی ہے۔ اس کے برعکس ہونا چاہیےتھا یعنی پہلے لفظ کی صراحت کی جائے اور پھر اس لفظ کا متبادل یا اصطلاح فراہم کیا جائے۔درج ذیل امثال سے پتا چلتا ہے کہ مولفِ لغت فارسی اور عربی اصطلاحات کو ترجیح دیتے ہیں اور بعد میں کہیں اُردو متبادل یا صراحت رقم کرتے ہیں۔ طبّی لغت کے مولف کے لیے ضروری تھا کہ وہ پہلے اُردو صراحت رقم کرتے اور بعد میں اُردو لفظ یا اصطلاح ترتیب دیتے ۔اس کے بعد بھی اگر ضرورت سمجھی جاتی تو فارسی اور عربی متبادل فراہم کردیے جاتے۔
Paracone
شرفہ طاحن علوی(ع) شرفہ بالائی دندان آسیا(ف) بالائی داڑھ کا کنگرہ
Phymatoid
شبیہ سلعہ(ع)درانی الشکل(ع) نظیر الورم جلدی(ع) شبیہ دنبل(ع،ف) رسولی کی مانند
Supervenosity
فوق احتقان وریدی(ع)ازدیا دوم وریدی(ع)کثرت خون سیاہرگی(ع،ف)سیاہرگی خون میں آکسیجن کی خلاف معمول کمی
:کارپس اساس سرمایہ الفاظ
اُردو میں آج بھی کارپس اساس(Corpus-based) سرمایہ الفاظ کا فقدان ہے یعنی ہمارے پاس ایسا کوئی ذخیرہ الفاظ نہیں جس کی بنا پر پتا چلا یا جاسکے کہ کس لفظ کو کس مفہوم میں استعمال کرنے کا چلن عام(Word Frequency Data)ہے۔ایسی صورت میں لغت نگار اپنے وجدان سے کام لیتے ہوئے الفاظ کو درست ترتیب سے پیش کرتا ہے یعنی کسی لفظ کی تشریح و تعبیر کے ضمن میں پہلے وہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو زیادہ عام ہوتا ہے اور اس کے بعد کم عام لفظ کو رکھا جاتا ہے ۔انگریزی لفظ فی ور(Fever)کے لیے اُردو میں جولفظ کثرت سے استعمال ہوتا ہےوہ بخار ہے۔ تپ یا کوئی اور لفظ بعد کی بات ہے ۔
حمی(ع) تپ(ف)بخار،خلاف معمول جسم کازیادہ درجہ حرارت۔
صفیحہ الدم(ع)لویحہ خون(ع، ف)تشتری خون(ف) خون کی طشتری
کا اندارج (Source Word) مدخل
طبّی لغت میں جو بھی انگریز ی مدخل استعمال ہوئے ہیں انھیں رقم کرنے میں مولف نے بڑے انگریزی حرف (Capital Letter) کا استعمال کیا ہے جو درست نہیں۔ لغت میں صرف ان الفاظ و اصطلاحات کو بڑے حرف سے لکھا جاتا ہے جو اسماے معرفہ ہیں۔ اسماے نکرہ کو چھوٹے حرف سے لکھنا چاہیے۔
(2)
ہمارے پیش ِ نظر طبّی لغت از ڈاکٹر سیّد محمد اسلم ہے جس میں لفظ کرونا موجود نہیں۔ اس امر پر حیرت اس لیے نہیں ہوتی کرونا بہ طور بیماری کوئی زیادہ پُرانا لفظ نہیں۔سال ۲۰۲۰ سے پہلے طبّی شعبے سے وابستہ افرادبھی اس سے کم ہی واقف ہوں گے۔
آکسفرڈ انگلش اُردو ڈکشنری(The Oxford English Urdu Dictionary) از شان الحق حقی میں کرونا کے چھے استعمالات درج کیے ہیں۔ بہ طور بیماری اس لفظ کی صراحت درج نہیں۔یہ دولسانی لغت۲۰۰۳ میں منظر عام پر آئی ۔اسی طرح ضخیم ’’قومی انگریزی اُردو لغت‘‘ میں بھی اس لفظ کی صراحت بہ طور بیماری موجود نہیں۔لغت مذکور ۱۹۹۲ میں شائع ہوئی ۔
آکسفرڈ انگلش ڈکشنری(OED)نے اپنی ویب سائٹ پر اطلاع دی ہے کہ انگریزی زبان کی تاریخ میں لفظ کرونا سب سے زیادہ استعمال ہونے والااسم (Noun)ہے۔ اوا ی ڈی نے ۲۰۱۷ سے تاحال ویب سائٹس پر دست یاب اخباری مواد (Web-based News Content)پر مشتمل آٹھ ارب الفاظ کا جائزہ لیا ہے ۔ مارچ ۲۰۲۰ میں ہردس لاکھ الفاظ میں لفظ کرونا ۱۸۰۰ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔جنوری ۲۰۲۰ یا اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال نہیں ملتا۔
صرف اِک دل ہے جو حرکت کررہا ہے
اور سنّاٹا بدن میں منجمد ہے
حرفِ ناگفتہ خموشی کا کفن پہنے
کسی اظہار کی ساعت سے ملنا چاہتے ہیں
بند آنکھوں میں گزشتہ رونقیں
سر کو جھکائے منتظر ہیں
ایک ایسی روشنی کی
جو نئے منظر جگادے
ذہن کے بارے میں اب تک
کوئی رائے سامنے آئی نہیں ہے
ایک کمرے میں معالج
تجزیوں میں وقت اپنا کاٹتے ہیں
اور نرسیں سرد ہونٹوں پر
لپ اِسٹک کے دبیز استر سجائے گھومتی ہیں
مَیں بھی اس ماحول میں خاموش سا بیٹھا ہوا
اندازوں کے دلدل میں دھنستا جارہا ہوں
زندگی اور موت کے مابین سب ساکت کھڑے ہیں
صرف اِک دل ہے جو حرکت کررہا ہے
بے نتیجہ لڑ رہا ہے
حقیقتوں نے نکالا نہ جن کو خوابوں
نہیں وہ ڈوب کر اُبھرے کبھی سحابوں سے
چمن میں پھیل گیا ہر طرف یوں رنگِ خزاں
کہ خوشبو اب نہ کبھی آئے گی گلابوں سے
سوال بن کے رہے زیست میں میری شامل
جو مطمئن کبھی کرپائے نہ جوابوں سے
ہمیں ہے علم کہ واں ریت کے بگولے ہیں
لگائو ہے انہیں جانے کیوں مہتابوں سے
ہوئے وہ گمشدہ ماضی میں اس طرح سے مرے
کہ چاہ کر بھی نکل پائے نہ خیالوں سے
یہ کچھ تجربے میری زندگی کا حاصل ہیں
نہیں مل سکتا تھا یہ علم چند کتابوں سے
رہتی ہوں آپ ہی میں ان سے گریزاں نسریںؔ
قریب ہوکے بھی جو دُور ہوں بہانوں سے
ایسے افراد خال خال ہوتے ہیں جو دیکھنے میں ہی ایسے نظر آئیں، جیسے کہ وہ اصل میں ہوتے ہیں۔ جن کا جسم وہاں ہو، جہاں ان کی روح ہو، اور روح وہاں ہوں، جہاں ان کے پائوں ہوں۔ گردو پیش کا تجزیہ کرتے وقت اپنے آپ کو درمیان سے بالکل ہی خارج کردیں۔ فخر، ضرورت سے کم لینے میں سمجھیں۔ مولانا غلام اعظم اس انداز کے درویش اور مفکر ہیں۔ جہلم والے ان کو بجا طور پر جہلم کا مولانا روم کہتے ہیں۔
میں نے مولانا کو جب پہلی مرتبہ دیکھا تو وہ حقہ پی رہے اور کتاب پڑھ رہے تھے۔ یہ ہمارا بچپن اور ان کی جوانی کا زمانہ تھا۔ لمبے چوڑے ہاڑ کے تگڑے آدمی شنگر فی چہرہ سرخی ڈورے۔ بھرواں داڑھی۔ آنکھیں میں سرخ ڈورے کھدر کا کرتا تہ بند ململ کی پگڑی۔ وضع سے نہایت کھردرا۔ جٹ کاشتکار مگر رمز آشنائے روم و تبریز۔ خوش گفتار ایسا کہ:
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
مولانا غلام اعظم سے میری ذاتی نیاز مندی پر اب نصف صدی گزرچکی ہے۔ مولانا میرے برادر اکبر (سید بشیر حسین شاہ صاحب سابق مجسٹریٹ) کو اپنا برادر اصغر سمجھتے ہیں۔ دونوں کی دوستی میں حقے اور کتاب کے علاوہ زندگی بسر کرنے کا ایک قلندرانہ انداز قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ باہمی رفاقت و یکجائی کا یہ عالم ہے کہ مولانا آدھے ہمارے گھر میں اور بھائی جان آدھے مولانا کے گھر میں رہتے ہیں۔ روٹی کہیں بھی کھائیں مگر حقہ ہمیشہ مولانا کا ہوتا ہے۔ یوں ہم نصف صدی سے ان کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔
ایک طویل مدت تک وہ حقہ اور کتاب برابر برابر پیتے رہے۔ ایک کش حقے کا ایک سطر کتاب کی۔ نے ہونٹوں میں، کتاب نظر میں۔ خود (موسم کے مطابق عموماً) کمبل یا کھڈی کے کھیس میں لپٹے ہوئے۔ استغراق میں برابر برابر کوئی سمجھے بس حقہ پی رہے ہیں۔ کوئی جانے صرف کتاب پڑھ رہے ہیں فارسی زبان کے عظیم محقق اور نقاد (مرزا بیدل پر اتھارٹی) خواجہ عباداللہ اختر (جو امر تسر سے ہجرت کرکے جہلم میں آئے تھے) اشتیاق سے کہا کرتے۔ ’’مولانا اے کاش! میں آپ جتنی کتابیں پڑھ سکتا‘‘ مولانا کے ایک اور دوست کرنل سرشیر محمد خان کہا کرتے۔
’’آپ ایک برس میں پچاس ایکڑ تمباکو کا کھیت پی جاتے ہیں۔‘‘
ہر کسی نے اپنے اپنے ظرف تک پایا اسے
رفتہ رفتہ حقہ کم اور کتاب زیادہ پینے لگے۔ چار چھ اخبار، جرائد اور کسی علمی کتاب کے ڈیڑھ دوسو صفحات کا مطالعہ ان کا ’یومیہ راشن‘ ہے۔ جن دنوں، جہلم اپنے گائوں گرمالہ میں رہائش تھی، اخبارات اور کتابوں کے تعاقب میں روزانہ بائیسکل پر شہر آیا کرتے۔ جہلم میں، کتابوں کا قحط رہا ہے۔ مگر مولانا غلام اعظم اس قحط سے کبھی متاثر نہیں ہوئے۔ ابتدا میں انہوں نے پورے ضلع جہلم پر ’ہاتھ صاف‘ کیا۔ یعنی ضلع بھر میں جہاں سے کتاب کی خوشبو آئی، آپ بہ نفس نفیس ریل۔ بس۔ بائیسکل پر سوار ہوکر کتاب کے پاس پہنچتے۔ بعد میں یہ سلسلہ خیبر سے لاہور تک وسیع ہوگیا۔ عزیزوں، نیازمندوں، دوستوں سے ان کی ایک ہی فرمائش ہوتی ہے۔ کوئی کتاب؟ اب تو خیر ان کے پاس اللہ کے فضل سے موٹر اور ٹیلی فون موجود ہیں۔ مگر میں خیال کرتا ہوں کہ کتابوں کی تلاش میں انہوں نے ہزار ہا میل کا سفر سائیکل پر طے کیا ہوگا۔ ایک مرتبہ ’گوہر نامہ‘ کا قدیم نسخہ پڑھنے کے لیے جو پونچھ کے کسی ٹھاکر کے پاس محفوظ تھا، پیدل چلتے ہوئے پونچھ پہنچے۔
حکام ورئوسا کی طرف ان کے رویے پر یاد آیا کہ ایک مرتبہ (غالباً 1935 میں) جب تاجدار برطانیہ، شہنشاہ ہند، ملک معظم جارج پنجم نے بستر علالت سے اٹھ کر غسل صحت کیا تو ضلع کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے غسل صحت کے ایک سہ روزہ جشن کا اہتمام کیا۔ ڈپٹی کمشنر نے مولانا سے قریب میں قصیدہ پڑھنے کی فرمائش کی۔ مولانا نے معذرت لکھ بھیجی۔ ڈپٹی کمشنر نے مجسٹریٹوں، تھانیداروں اور معززین کو بھیجنا شروع کیا۔ مولانا کی طبیعت میں ظرافت کا مادہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ چنانچہ اس وقت کہ ماشاء اللہ ان کی عمر پچاسی برس کے لگ بھگ ہے، ان کی طبیعت میں ظرافت کی پھلجڑیوں سے محسوس ہوتا ہے کہ آدمی بوڑھا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کا دل بوڑھا ہوجائے۔ کہنا یہ تھا کہ ڈپٹی کمشنر کا جو ایلچی آتا آپ کو شوخ شنگ سا جواب بھجوا دیتے۔ ایک آنریزی مجسٹریٹ سے آپ نے کہا، ڈپٹی کمشنر سے کہہ دیجیے کہ ملک معظم نے جاڑے کے موسم میں غسل صحت کیوں کیا ہے؟ انہوں نے ان کو پیغام من و عن پہنچا دیا۔ جیل جاتے جاتے بچے۔ ویسے مولانا کود جیل جانے پر بہت خوش تھے کہ انگریز کی جیل میں سیاسی قیدیوں کو ’فراغتے اور کتابے‘ کی سہولت فراوانی سے ملا کرتی تھی۔
مولانا نے علم کتب سے نہیں، اپنے و نگاہ سے کشید کیا ہے۔ اپنی ’پیاس‘ سے پیا ہے۔ وہ عمر بھر طالب علم رہے۔ مگر اپنا زانو ئے تلمذ اپنے سامنے ہی طے کیے رکھا۔ تحصیل علم کو، انہوں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی محبت اور سب سے بڑا مشن بنالیا۔ اس لگن میں ان کا گھر تاریک رہا تو ان کی بلا سے مگر انہوں نے اپنے ذہن کو ہمیشہ روشن رکھا۔ وہ خود ایک نیم روشن حجرے میں پڑے رہتے ہیں مگر اپنے ذہن کو تازہ ہوا اور کھلی دھوپ میں بچھائے رکھتے ہیں وہ روٹی اٹھارویں صدی میں کھاتے اور سانس بیسویں صدی میں لیتے ہیں ہفت زباں ہفت قلم شاعر ادیب خطیب مورخ مفکرمفسر اردو فارسی عربی بھاشا اور سنسکرت میں جو قدرت سخن ان کو حاصل ہے، اس میں شاید کوئی دوسرا فرد آج پاکستان میں ان کا ہمسر نہ ہو طوالت میں اغلاط کا احتمال ہوتا ہے۔ مولانا کا مضمون جتنا طویل ہوتا جائے اتنا ہی نکھرتا چلا جاتا ہے۔
فکر و فن کے مرحلے میں ان کی سی لگن اور ریاضت اور تیاک کی مثالیں کم نظر آئیں گی کھانا کم سو چنازیادہ سونا کم جاگنا زیادہ کھدر پہننا، ریشم بولنا کالی داس کاشید بھی میاں محمد صاحب کی (سیف الملوک) کی طرح نوک برزبان حافظ اور امراء القیس کے اداشناس۔ رومی و اقبال کے مزاج دان۔
ایک مدت تک صرف پڑھتے اور سوچتے رہے۔ تاریخ، فلسفہ اور عمرانیات پر زیادہ دھیان رہا۔ قرآن حکیم پر غور و فکر دن رات کا معمول تھا۔ جہلم میں کتابوں کے قحط کے ذکر پر کہا کرتے ہیں میرے لیے یہ ایک ام الکتاب کافی ہے۔
میں اگر مزید زندگی کی خواہش کرتا ہوں تو محض اس لالچ میں کہ شاید قرآن کے وہ غواص ذہن پر مکشف ہوجائیں۔ ایک مدت تک لکھنے کی طرف راغب نہ ہوسکے جو کچھ لکھا تلف کردیا۔ شائع ہوگیا۔ بڑی احتیاط برتی تو کاغذات چرمر کرکے ایک صندوق میں ڈالتے گئے۔
ڈھونڈو اب ان کو چراغ رخ زیبا لے کر
بچے (شبراعظم پروفیسر خضر اعظم۔ سکندر اعظم اور شبیر اعظم جوں جوں سیانے ہوتے گئے والد کے صندوق کو کھگالنے لگے اہم نے بکھرے ریزہ ریزہ مسودات کو جوڑ جاڑ کر مرتب کیا۔ مولانا ناں ناں کرتے اب تک چند تصنیفات، جن میں ’ذوالقرنین کا اصول تصور‘ ’تفسیر سورہ فاتحہ‘۔
’اتا ترک ناد‘ (اردو نظم) نغمہ صداقت (مثنوی) بھگت گیتا (اردو نظم) نوری ڈلک (پنجابی نظم) اور ’ادذب زادارادت‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں اب تک منظرعام پر آچکی ہیں۔ اور ہزارہا صفحات کا مواد صندوقوں میں ٹھسا پڑا ہے۔
مولانا غلام اعظم پیدل بھی رہے۔ سائیکل بھی چلائی۔ اب موٹر میسر ہے۔ مکان پر ٹیلی فون بھی لگا ہے۔ اور اولاد صاحب اقبال ہے۔ مکان پر ٹیلی فون بھی لگا ہے۔ اور اولاد صاحب اقبال ہے۔ مگر ان کے اسلوب حیات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہی درویشی و قلندری۔ کمبل کبھی اوپر کبھی نیچے نہ صلے کی تمنا نہ ستائش کی پروا اپنا سورج اپنی دھوپ اپنا چاند اپنی چاندنی دنیا سامنے، خود اوجھل چند روز ہوئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حقہ پی رہے، کتاب پڑھ رہے تھے۔
کبھی زباں، کبھی اپنا بیان، بدلے گا
طرح طرح سے مرا بدگمان، بدلے گا
اس ایک آس پہ کیوں، زندگی گزاروں میں
نصیب آکے کوئی، مہربان بدلے گا
ہمارے درد کا لفظوں سے، مت علاج کرو
کسی نظر سے ہمارا یہ، دھیان بدلے گا
جو میرے قتل کا، مضبوط عینی شاہد تھا
عدالتوں میں یقیناً، بیان بدلے گا
سمندروں کی کھلی، سازشیں یہ کہتی ہیں
کہاں تلک کوئی اب، بادبان بدلے گا
اس ایک شوق میں ہم، جاگتے رہے عابدؔ
وہ قصہ گو تو کبھی، داستان بدلے گا

کال بیل بجانے پر ایک دراز قامت شخص جس کی کنپٹیوں کے بال سفید تھے، باہر نکل آیا اور اسے پہچاننے میں مجھے ایک لمحے سے زیادہ نہ لگا۔
’’ابے لمبو کہیں کے، پہچانا مجھے؟‘‘ میں نے بے تکلفی سے مخاطب کیا تو وہ ایک ساعت کے لیے بھونچکا رہ گیا۔
’’کون؟‘‘ اس نے غور سے دیکھتے ہوئے میرا نام لیا اور پھر ہم دونوں لپٹ گئے۔
’’میرا پتا تمہیں کہاں سے ملا؟‘‘ ساجد نے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا۔ ’’بس ڈھونڈ ہی نکالا، اور سنائو۔‘‘ میں نے بارہ پندرہ برس کی خلیج کو ایک ہی جست میں عبور کرنا چاہا۔ بات یہ تھی کہ ہم دونوں یونیورسٹی فیلو تھے۔ گہرے دوست جو یونیورسٹی کی دہلیز سے باہر قدم نکالتے ہی بچھڑ جاتے ہیں اور پھر کبھی اتفاقاً سرِراہ مل جاتے ہیں تو نہایت خلوص سے نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہیں لیکن ملنے کے جتن نہیں کرتے۔ کیا کِیا جائے، زندگی کے جھمیلے ہی ایسے ہیں کہ آدمی ان سے نہیں مل پاتا جن سے ملنے کو دل چاہتا ہے۔
’’شمی!‘‘ تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد اس نے آواز دی۔ ایک خاتون دوپٹے سے اپنے چہرے کے پسینے کو خشک کرتی ہوئی نمودار ہوئیں۔ ’’یہ میری بیگم ہیں۔‘‘ اس نے تعارف کرایا۔ میں نے کسی قدر اُٹھ کر سلام کیا۔ بھابی نے آہستگی سے مسکراکر جواب دیا۔ پتا نہیں کیوں وہ مجھے کچھ پریشان حال سی لگیں۔
’’بھئی شمی، یہ پندرہ سال بعد ملا ہے، رات کا کھانا ہم ساتھ ہی کھائیں گے۔ آج تم اپنی کوکنگ کی بہترین صلاحیتیں استعمال میں لانا، ٹھیک ہے نا۔ فرسٹ کلاس ڈنر ہونا چاہیے۔‘‘
ساجد کے لہجے میں تحکم تھا جیسے ہوٹل میں بیٹھا ہو۔
’’میرا خیال ہے تم بھابی کو خواہ مخواہ زحمت نہ دو۔‘‘ میں نے تکلف سے کہا۔
’’ابے کیسی بات کررہا ہے، شمی بس فٹافٹ اور ہاں مجھے ڈنر کے بعد ایک پارٹی سے ملنے بھی جانا ہے۔‘‘
’’جی بہت بہتر۔‘‘ بھابی نے فرمانبرداری سے کہا۔
’’اور وہ تم نے میرے کپڑے پریس کردیے، وہ گرے کلر والی پینٹ اور چیک شرٹ الماری سے نکال …‘‘ اپنے آرڈر نوٹ کرانے کے بعد اس نے اپنا رخ میری طرف کرلیا ’’اور سنائو۔‘‘
’’بس گزر رہی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’شادی وادی کرلی؟‘‘
’’گڈ، میرے تو پانچ ہیں، ایک دو نہیں پورے پانچ… بچے خوب سارے ہونے چاہئیں۔ اب اسکول سے آنے ہی والے ہوں گے۔ جب آجائیں پھر دیکھنا گھر میں کیسی رونق لگتی ہے۔‘‘
’’بھابی بڑی خدمت گزار معلوم ہوتی ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’یار… اس معاملے میں تو مَیں واقعی خوش قسمت ہوں۔ بڑی محنتی اور وفاشعار بیوی ہے۔ غریب منہ اندھیرے اُٹھ جاتی ہے اور ایک ٹانگ پر کھڑی رہتی ہے۔ سارے بچّوں کو تیار کرکے اسکول بھیجنا، پھر مجھے تیار کرانا، ناشتا دینا، ساتھ میں لنچ دینا، پھر خود ہی مارکیٹنگ کرنا، بجلی گیس کے بل جمع کرانا، رشتہ داروں کی خوشی غمی میں خیال رکھنا، مجھے تو کسی بات کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ یار… بڑا آرام ہے اس کی وجہ سے۔‘‘
’’اور ان سب کاموں کے علاوہ ہر سال تمہارے لیے ایک بچہ پیدا کرنا۔‘‘ میں نے مذاقاً کہا۔
’’بچّہ تو بہت ضروری ہے، ابھی تو دوچار کی مزید گنجائش ہے۔ کیا خیال ہے باہر لان میں بیٹھیں۔‘‘ اس نے پوچھا اور پھر وہیں سے چلّایا ’’شمی! لان میں کرسیاں رکھوادو، ہم لوگ باہر بیٹھیں گے۔‘‘
لان میں کیاریاں سلیقے سے نکالی گئی تھیں۔ گھاس اور پھولوں کے تختے سے اندازہ ہورہا تھا کہ ان پر بہت محنت کی گئی تھی۔ ’’ارے… یہ پودا تو سوکھ رہا ہے۔‘‘ ساجد کی نگاہ ایک پودے پر چلی گئی۔ وہ جاکر پودے پر جھکا، اسے ہلاکر دیکھا اور پھر وہیں سے چیخا ’’شمی! یہ مالی کمبخت مفت کی روٹیاں توڑ رہا ہے۔ اس نے پودوں کا کیا ناس مار دیا ہے۔‘‘
’’جی۔‘‘ بھابی کا تھکا ہوا چہرہ کھڑکی سے نمودار ہوا۔ ’’آتا تو ہے پابندی سے۔‘‘
’’کیا خاک آتا ہے، اس پودے کا تو بیڑہ غرق ہوگیا۔ تم بھی ذرا خیال نہیں رکھتیں۔ دیکھا کرو، کام کرتا بھی ہے یا یوں ہی ٹُلا مارتا ہے۔‘‘
’’جی دیکھتی تو ہوں۔‘‘
’’اچھا چائے تو بھجوائو۔ اتنی دیر ہوگئی ہے ابھی تک تم نے کوئی خاطر ہی نہیں کی۔‘‘
’’سنا ہے تمہارے کاروبار نے خاصی ترقی کرلی ہے۔‘‘ میں نے موضوع بدلنے کے لیے کہا۔
’’ہاں یار… بس مولاکا کرم ہے، اس سال ایکسپورٹ اچھی ہوگئی ہے۔ میرے دو سالے امریکا میں ہیں، ان کا بھی وہاں کاروبار ہے۔ انہوں نے مجھے اس طرف لگایا، ان کی وجہ سے بڑی سپورٹ ہے۔‘‘
اتنے میں باہر اسکول وین کا ہارن بجا اور پھر جیسے بھونچال آگیا۔ مختلف سائز کے چھوٹے بڑے بچوں نے گھر کے گیٹ پر حملہ کردیا۔
’’السّلامُ علیکم ابو، السّلامُ علیکم انکل‘‘ کا کورس ہوا۔ ساجد نے انہیں اپنا اپنا تعارف کرانے کی ہدایت کی۔ سعدی کلاس ایٹتھ، شیراز کلاس سیونتھ، سمیر کلاس سکستھ اور … بچّے بستے اُٹھائے اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد اندر سے چیخ و پکار بلند ہوئی۔
’’کیچپ کہاں ہے؟‘‘
’’بھنڈی کیوں نہیں پکائی؟ میں نہیں کھاتا۔‘‘
’’شیراز… میری جگہ سے ہٹو… امّی!‘‘
’’روٹی بالکل ٹھنڈی ہے۔‘‘
بچّے ضد کررہے تھے، رو رہے تھے… اور جواب میں بھابی کی سمجھانے اور پچکارنے کی لجاجت آمیز آواز آرہی تھی۔
’’شمی!‘‘ ساجد بات کرتے کرتے چیخا۔ ’’بھئی چائے کیوں نہیں آرہی۔‘‘
’’ابھی لائی۔‘‘ اندر سے بھابی نے جواب دیا۔
ہم باتوں میں مصروف رہے۔ ساجد بتاتا رہا کہ اس عرصے میں وہ کیا کچھ کرتا رہا۔ وہ کافی بدل گیا تھا، دوسروں کی طرف سے کچھ لاپروا ہوگیا تھا، کاروباری لوگوں میں یہ بات میں نے اکثر پائی ہے۔ اتنے میں بھابی چائے لے کر آگئیں۔ ٹرے رکھ کر انہوں نے ہم لوگوں کو چائے پیش کی اور پھر جاتے جاتے پلٹ کر ساجد سے کہنے لگیں۔
’’سمیر کو بخار سا لگ رہا ہے، رات سے اسے کھانسی بھی ہے۔‘‘
’’ڈاکٹر کو دکھا دینا، یہ بچے احتیاط تو کرتے نہیں ہیں، دھوپ میں بھاگ دوڑ کرتے ہیں اور پھر یخ پانی پی لیتے ہیں۔ ذرا تم ہی خیال رکھ لیا کرو۔‘‘
میں نے دیکھا بھابی کے چہرے پر سایہ سا لہرا گیا۔
اس رات نہایت عمدہ اور لذیذ کھانا میں نے کھایا۔
جب میں رخصت ہونے لگا تو دونوں میاں بیوی بڑے خلوص سے گیٹ تک چھوڑنے آئے۔ بھابی تھکی اور مرجھائی ہوئی تھیں۔
’’آپ نے تو ابھی تک کھانا نہیں کھایا ہوگا۔‘‘ میں نے اخلاقاً کہا۔
’’بچّے سوجائیں تو پھر کھالوں گی۔‘‘ بھابی نے آہستگی سے کہا۔
’’ان کا روزانہ کا یہی معمول ہے…‘‘ ساجد نے کہا ’’مشرقی بیوی اور مشرقی ماں ہیں نا، اس لیے۔‘‘
میرا جی چاہا پوچھوں ’’شوہر خوش ہے، بچے خوش ہیں، کیا آپ بھی خوش ہیں؟‘‘ لیکن چاہنے کے باوجود نہ پوچھ سکا۔
مجھے حیرت تھی کہ مغرب کی تندو تیز یلغار کے اس زمانے میں مشرق اب بھی زندہ ہے۔
ابھی لبوں پہ نہیں، ہے جو روشنی دل میں
ترش رہی ہے ابھی لفظ کی کنی دل میں
کوئی نہیں ہے جو اِن سیپیوں کو کھول سکے
پڑے ہیں لاکھ سخن ہائے گفتنی دل میں
یہ مجھ سے برسرِ پیکار خلوتوں میں مری
چھپا ہے کون یہ تلوار کا دھنی دل میں
فغاں، کہ ٹال گئے ہم وہ ایک فرصتِ مرگ
تمام عمر رہی جس کی جانکنی دل میں
سرابِ علم و ہنر پر نہ بھولنا خورشیدؔ
جس آدمی کے نہ دیکھو فروتنی دل میں
فروغِ ادب اور کتب بینی میں جہانِ مسیحا ادبی فورم کی خدمات قابل تحسین ہیں گزشتہ دو دہائیوں سے یہ فورم علمی، ادبی، طبی خدمت تواتر سے انجام دے رہا ہے۔ فورم نے تحریک پاکستان/قائداعظم کے حوالے سے بڑے سائز کے بارہ صفحات پر مشتمل ایک یادگاری کیلنڈر بھی شائع کیا جس میں تحقیقی مواد نامور محقق سابق ڈائریکٹر ’’قائداعظم اکادمی‘‘ خواجہ رضی حیدر نے فراہم کیا جب کہ معروف آرٹسٹ یوسف تنویر نے اس کی تصویری تزئین کی کثیر تعداد میں شائع ہونے والا یہ کیلنڈر پورے ملک کے علمی، ادبی طبی حلقوں میں مفت تقسیم کیا گیا جب کہ ہر سال مختلف موضوعات پر (فارمیوو) کے 21 کیلنڈر شائع ہوچکے ہیں۔ علاوہ ازیں فورم نے 30 سے زائد چھوٹی بڑی علمی، ادبی، کتابیں بھی شائع کیں، فورم کو اپنے عہد کی نامور علمی ادبی شخصیات کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ جن میں معروف دانشور، ادیب، شاعر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، خواجہ رضی حیدر، ڈاکٹر طاہر مسعود، پروفیسر سلیم مغل، باری میاں فرنگی محلی، عطید ریاض، واجد جواد، ڈاکٹر شیر شاہ سید، ڈاکٹر ٹیپو سلطان، ڈاکٹر اقبال پیرزادہ، ڈاکٹر منصور، ڈاکٹر اقتدار توفیق، ڈاکٹر فرخ ابدالی، انیق احمد، طارق ابو الحسن، سید جمشید احمد، ڈاکٹر مظہر عباس، ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر سکندر علی مطرب، ندیم ہاشمی و دیگر معروعف اہلِ قلم قابل ذکر ہیں۔
گزشتہ دنوں فورم نے دو روزہ ’علم فیسٹیول‘ بک فیئر اینڈ ہیلتھ فیسٹیول کا انعقاد ایکسپو سینٹرکراچی میں کیا۔ جس میں کراچی لائبریریز آف کونسل کے چیئرمین کمشنر کراچی افتخار احمد شالاوانی، نیشنل بک فائونڈیشن کے سابق ڈاکٹر انعام الحق جاوید، بک ایمبیسیڈر سید سلطان خلیل، دی سٹیزن فائونڈیشن، G ٹی وی، شاہد آفریدی فائونڈیشن، ایجوکیشنل ریسورس، ڈولپمنٹ سینٹر، ان لیونگ مارکیٹنگ کمیونیکیشن، رننگ NDS، ہماری ویب، فاسٹ ایف ایم 103 ریڈیو و دیگر اداروں نے تعاون کیا اور اسے فارمیوو نے لیڈ کیا۔
علم فیسٹیول کی ابتدا عادل تنویر نے تلاوت کلامِ پاک سے کی۔ ہال میں موجودہ تمام شرکاء نے منتظم اعلیٰ سید عرفان احمد، منتظم عمومی اطہر سلیمان، ڈاکٹر مسعود جاوید، نیئر جمیل، ریاض احمد، عبدالصمد، منصور خان، محسن شیراز، تمام مارکیٹنگ مینیجر، سیلز ٹیم، میڈیا کوآرڈینیٹر عبدالصمد تاجی کے ساتھ مل کر کھڑے ہوکر باادب قومی ترانہ پڑھا اور فیسٹیول کا آغاز ہوگیا۔ شہر کے معروف پبلشرز، بک سیلرز کے اسٹالر صبح ہی سے شرکاء کی دلچسپی کا مرکز رہے جہاں دس لاکھ سے زائد کتابیں موجود تھیں جن میں طب کے علاوہ، قانون، ادب، شاعری، اخلاقیات، سماجیات، معیشت اور انگریزی کتب کے علاوہ بچوں کے لیے دلچسپ معلوماتی، ڈرائنگ بکس بھی شامل تھیں۔ بچوں میں پینٹنگز کے مقابلے بھی شرکاء کی توجہ کا مرکز رہے۔ روٹری کلب کی موبائل لائبریری کے آئیڈیے کو بھی لوگوں نے سراہا۔ روٹری کلب کارساز کی صدر بھی علمی، ادبی شخصیات کا مرکز رہا۔ مختلف طبی اداروں نے اپنے اپنے اسٹالز پر مفت سروسز فراہم کیں اور مختلف اقسام کے ٹیسٹ مفت کیے۔ علم فیسٹیول کے کانفرنس ہال میں آرٹ آف سکسس، ہیلتھ لائف اسٹائل، کک ہیلتھ، میں سید جمشید احمد، سہیل زندانی، سلمان آصف صدیقی، طلحہ فاروقی، یوگی وجاہت، شیف اسد لطیف نے سیشنز کیے۔
معروف شاعر ڈاکٹر سکندر علی مطرب کی کتاب ’بہشت زیرپا‘ کی افتتاحی تقریب بھی منعقد کی گئی۔ ماں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے والی شاعری کی اس پہلی کتاب پر ارشد انور، اطہر سلیمان، عبدالصمد تاجی نے گفتگو کی۔ صاحبِ کتاب نے جب شاعری پڑھ کر سنائی تو پورا ہال اشکبار ہوگیا۔ شرکاء نے بھر پور انداز میں صاحبِ کتاب کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد دی۔
علم فیسٹیول میں شرکت کے لیے NBF کے ڈاکٹر انعام الحق جاوید خصوصی طور پر اسلام آباد سے تشریف لائے۔ جماعتِ اسلامی سندھ کے امیر محمد حسین محنتی، ڈاکٹر فاروق ستار، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، ڈاکٹر شیر شاہ سید، آصف فرخی، ڈاکٹر ٹیپو سلطان، ڈاکٹر فواد فاروق، طہارت خان، عقیل عباس جعفری، سعد زبیری، تحسیم الحق حقی، خالد میر، امجد محمود، عطیہ باجی، عطا محمد تبسم، پروفیسر لئیق احمد، بقائی یونیورسٹی کی ڈاکٹر عائشہ نورین، ڈاکٹر زنیرا اکرم، ڈاکٹر اقتدار توفیق، تحسین فاطمہ، ڈاکٹر تبسم جعفری، صدیق راز ایڈووکیٹ، میر حسین علی، شکیل ابن عادل، پروفیسر شازیہ ناز عروج کے ساتھ ہزاروں افراد نے اہل خانہ کے ساتھ شرکت کی۔
اس موقع پر ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے جہان، مسیحا ادبی فورم کی کاوش کو سرہاتے ہوئے کہا کہ کتاب ہی بہترین رفیق ہے ہمیں معاشرے میں کتاب کلچر کے فروغ کے لیے مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ جماعت اسلامی سندھ کے امیر محمد حسین محنتی نے کہا کہ علم کے فروغ سے ہی ہمارے ملک میں امن و امان پروان چڑھے گا کتابیں بندوقوں اور بموں کا بہترین متبادل ہیں۔ ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ترقی کا راز علم سیکھنے اور پھیلانے میں ہے علم کو فروغ دے کر ہی ہم ملک سے برائیوں اور دہشت گردی کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کہا کہ اگر انسان بننا ہے تو اردو ادب سے قریب ہونا ہوگا اور اس کے لیے ایسی تقریبات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر ٹیپو سلطان نے کہا کہ علم فیسٹیول سے صحت مند معاشرے کی تشکیل میں مدد ملے گی۔ بیٹھک اسکول ایڈوائزری بورڈ کے سید جمشید احمد، منتظم اعلیٰ سید عرفان احمد، اطہر سلیمان نے بتایا کہ فورم اب پورے سال علمی، ادبی، سرگرمیاں جاری رکھے گا۔ اختتامی تقریب میں منتظم عمومی اطہر سلیمان نے فورم کی جانب سے بہترین تعاون پر بک ایمبیسیڈر سید سلطان خلیل اور معروف صحافی عبدالصمد تاجی کو بھی یادگاری شیلڈ پیش کی۔ لوگوں نے اپنے تاثرات میں کہا کہ حکومت ایسی صحت مند سرگرمیوں کے لیے خود بھی سرگرم ہو اور پرائیویٹ سیکٹر کو بھی سرگرم کرے تاکہ ماحول میں تبدیلی آئے۔
یہ جو مجھ کو گِرا دیا گیا ہے
آپ کو راستہ دیا گیا ہے
کوئی تیری مثال ہی نہ رہے
آئینہ بھی ہٹا دیا گیا ہے
(قمر رضا شہزاد)
جس دن پروفیسر کو وارڈ میں رائونڈ کرنا ہو اس دن وارڈ میں بڑی رونق ہوتی ہے۔ مہتر (Sweeper) اور وارڈ سرونٹ سے لے کر رجسٹرار اور اسسٹنٹ پروفیسر تک سب لوگ پروفیسر کے آنے سے پہلے ہی وارڈ میں پہنچ کر صبح ہی سے اپنے کام میں جُت جاتے ہیں۔ اختر کی ڈیڑھ مہینے کے لیے آرتھوپیڈک وارڈ میں پوسٹنگ ہوگئی تھی۔ جس وقت وہ وارڈ میں پہنچا مہتری بڑی محنت سے فرش پر پوچھا مار رہا تھا۔ ایک پٹے والا دیواروں پر پان کی پیک سے بنائی گئی گلکاریوں کو مٹانے کی کوشش میں مصروف تھا، وارڈ سرونٹ ڈانٹ ڈانٹ کر مریضوں کے تیمارداروں کو وارڈ سے باہر نکال رہا تھا کہ بذاتِ خود ان لوگوں کے رش سے بھی تو وارڈ گندا لگنے لگتا ہے اور گندا ہو بھی جاتا ہے۔ اسٹاف نرس اپنی مخصوص ٹون میں ماسی پر برہم ہورہی تھی۔ PG اسٹوڈنٹ اپنے اپنے Bed پریذنٹ کرنے کی تیاری کررہے تھے جب کہ ہائوس آفیسرز مریضوں کی Morning Progress لینے میں مصروف تھے۔ اس کے لیے تو بہرحال یہ معمول کی بات تھی اس لیے قدرے بے نیازی سے ان مناظر کو دیکھتا وہ دفتر پہنچا تھا دیگر Consultants آچکے تھے اور پروفیسر صاحب کا انتظار تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ رجسٹرار ایڈمنسٹریشن (Registrar Administration) خواہ مخواہ ہی ادھر ادھر کا چکر لگا رہے ہیں وہ کبھی ایک الماری کھول کر اس میں منہ دے کر کچھ تلاش کرنے لگتے کبھی دوسری میں کچھ الٹ پلٹ کرنے لگتے۔ کبھی باہر نکل جاتے اور کبھی آکر بیٹھ جاتے پھر کچھ یاد آتا اور وارڈ سرونٹ کو آوازیں دیتے ہوئے پھر باہر نکل جاتے۔ یہ بھی شاید رائونڈ والے دن کا معمول تھا۔ پروفیسر کے آنے کے بعد رائونڈ شروع ہوا اور ان کی سربراہی میں سولہ سترہ ڈاکٹروں کا گروپ ایک ایک کرکے مریضوں کو دیکھتا اور ڈسکس کرتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ بیڈنمبر 21 پر ایک ایسی لڑکی پڑی تھی جس کی دونوں ٹانگیں مڑی ہوئی تھیں۔ اس کا جسم کمزور، چہرہ بے رونق اور آنکھیں مردہ لگ رہی تھیں۔ وہ بستر پر پڑی بے بسی اور بے چارگی کی تصویر محسوس ہورہی تھی۔ ڈاکٹر ساجد کیس کے بارے میں پروفیسر کو بریف کرنے لگے۔ ’’سر اس کی دو سال کی ہسٹری ہے۔ اس کو چلنے پھرنے میں تکلیف ہوتی تھی جلد تھک جاتی تھی۔ پھر گھٹنوں میں شدید تکلیف ہوئی اور پھر گھٹنے کا جوڑ اس طرح سے مڑگیا کہ اب یہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہی۔‘‘
وہ لڑکی اب اٹھ کر بیٹھ چکی تھی اور عجیب و غریب نگاہوں سے ڈاکٹروں کے ہجوم کو دیکھ رہی تھی جن کی توجہ کا مرکز اس وقت تو صرف وہی تھی اور جو اس کے متعلق اجنبی زبان میں گٹ پٹ کرتے ہوئے نجانے کیا باتیں کررہے تھے۔ ڈاکٹر ساجد بتا رہے تھے۔
’’سر! یہ لوگ غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں گھر میں عام طور پر سبزیاں استعمال ہوتی ہیں اور گوشت کم ہی کھایا جاتا ہے۔ گھر میں دھوپ بالکل نہیں آتی۔ اس کی دو بہنوں کو بھی اسی طرح کی بیماری ہے لیکن اتنی شدید نہیں۔‘‘
وہ کچھ رکے اور پھر فائل کو اٹھاکر کاغذات الٹتے ہوئے پھر گویا ہوئے ’’ہم نے اس کو Investigate کروایا ہے۔ اس کا کیلشیم لیول کم (Calcium Level Low) ہے جب کہ Alk Phosphatase بھی بڑھا ہوا ہے۔ سر! یہ Anaemic (خون کی کمی) بھی ہے اور اس کے X-ray Pathological Fractures ظاہر کررہے ہیں۔ انہوں نے X-ray Films سامنے کردیں۔ لیکن یہ اس کو Knee Joints (گھٹنوں) میں کیا Problem ہے۔ آپ بتائیں ڈاکٹر عامر، سَر نے اس کے مڑے ہوئے گھٹنوں کی طرف اشارہ کیا اور اچانک ہی عامر سے سوال کردیا۔
’’سر! غالباً یہ Contractures بن چکے ہیں کیوں کہ اس کو گھٹنوں کو موڑے رکھنے میں زیادہ آرام محسوس ہوتا تھا اس لیے ایک طویل عرصے تک اس نے اپنی ٹانگوں کو اسی طرح رکھا خاص طور پر Fracture (ہڈی کا ٹوٹنا) کے بعد بھی ٹانگیں اسی طرح رہیں۔‘‘ کچھ گڑبڑاکر عامر نے تیزی سے جواب دیا اور پھر تائید طلب نگاہوں سے سَر کی طرف دیکھنے لگا۔ اور سَر عامر کی بات کی تائید کرنے کے بجائے اس لڑکی سے پوچھنے لگے، ’’بے بی! آپ کو کیا ہوا تھا شروع میں۔‘‘ سَر کی آواز نرم اور لہجہ ہمدرد تھا۔ گھبرائی ہوئی لڑکی نے ایک نظر سر کو دیکھا اور پھر اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی، ’’ڈاکٹر صاحب مجھے یہاں درد ہوا تھا… اور …اور۔‘‘ وہ اٹک گئی۔
’’اور…‘‘ اس کی آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی اور پھر وہ بے آواز ہوکر رونے لگی۔
’’رو نہیں بے بی۔ روتی کیوں ہو؟‘‘ سرنے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا۔ ’’اگر رونے سے مسئلہ حل ہوجائے گا تو خوب رولو۔ لیکن رونے سے آپ کا مسئلہ حل ہوگا نہیں۔‘‘
وہ اپنے آنسو پونچھنے لگی۔
’’ساجد صاحب آپ نیورولوجی والوں سے بھی Opinion (رائے) لے لیں۔ اس کو Skin Traction لگوائیں اور کیلشیم اور وٹامن ڈی تھراپی شروع کروادیں۔‘‘ سر نے کہا اور آگے بڑھ گئے۔ لیکن اختر یہ محسوس کرنے لگا کہ شاید وہ اس لڑکی کی حالت دیکھ کر دل گرفتہ ہوگیا ہے۔ سب اس بیڈ سے ہٹ کر دوسرے بیڈ تک پہنچ چکے تھے اس نے اپنے ذہن کو جھٹکا اور سب کے پیچھے چل دیا۔ وہاں شاید اب Diabetic Foot ڈسکس ہورہا تھا لیکن وہ ایک لفظ بھی نہیں سن سکا۔ نجانے کیوں اس پر سوچوں کی یلغار ہوچکی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ اس لڑکی کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا یہ بالکل ٹھیک ہوجائے گی؟ اور اگر اس کی ٹانگوں میں تھوڑا سا بھی Defect (نقص) رہ گیا تو کیا معاشرہ اسے قبول کرلے گا؟ پھر اسے خیال آیا کہ وہ کچھ زیادہ حساس ہورہا ہے ہمارے ہاں تو ایسے بے شمار Cases ہوتے رہتے ہیں اگر وہ ہر کسی کے بارے میں اتنا حساس ہوکر سوچنے لگا تو پھر گزر چکی زندگی۔ وہ اچانک بہت زیادہ تھکن محسوس کرنے لگا۔ ’’یہ رائونڈ ختم ہو تو چائے پینے چلیں گے۔‘‘ اس نے عامر کے کان میں سرگوشی کی۔ اور عامر نے گردن ہلادی ۔ لیکن رائونڈ بھی طویل تر ہوتا جارہا تھا۔ خداخدا کرکے رائونڈ ختم ہوا تو وہ عامر کے ساتھ کینٹین کی طرف چل دیا۔ چائے پینے کے دوران وہ خواہ مخواہ بہت زیادہ بولنے لگا اور نجانے کون کون سے ٹاپک ڈسکس کرنے لگا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ اپنے اندر کے شور سے پیچھا چھڑانے کے لیے یا ضمیر کی آواز پر کان نہ دھرنے کے لیے اپنے آپ کو کسی اور چیز میں مصروف کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ جس موضوع سے بچنے کی کوشش کررہا تھا۔ عامر اس وہیں لے آیا۔ عامر بھی اس لڑکی کے آنسوئوں سے بڑا متاثر ہوا تھا۔ لیکن اس کے خیال میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔ ’’ہاں واقعی ہم کیا کرسکتے ہیں۔‘‘ اس نے بھی گردن ہلادی۔ وہ وارڈ میں واپس آیا تو وہاں یہ مردۂ روح فرما سننے کو ملا کہ آج اسے 24 گھنٹے آن ڈیوٹی رہنا ہے کیوں کہ ندیم چھٹی پر ہے اور قرعہ فال اس کے نام نکلا ہے۔ اس کا برا سا منہ دیکھ کر عامر کہنے لگا، ’’تو کیا ہوا Non Emergency Dayہے۔ مریض تو آئیں گے نہیں۔ تم فون کا پلگ نکال کر اور کتاب کھول کر بیٹھ جانا۔ پڑھائی تو یہاں بھی ہوسکتی ہے؟ تو تم کیوں نہیں دے لیتے ڈیوٹی۔ اگر ایسی آسان ہے۔‘‘ اس نے عامر پر جوابی کارروائی کی تو عامر بغلیں جھانکنے لگا۔ پھر آہستہ آہستہ وارڈ میں ڈاکٹروں کا رش کم ہونے لگا اور اسی حساب سے مریضوں کے تیمارداروں کا رش بڑھنے لگا۔ ظہر کے بعد تو صرف وہی اکیلا ڈاکٹر ڈیوٹی روم میں بیٹھا آج کا بور دن بہتر طریقے سے گزارنے کے منصوبے بنا رہا تھا۔ نرسیں کھانا کھانے جاچکی تھیں۔ وارڈ سرونٹ دوسرے وارڈ کے سرونٹ کے ساتھ بیٹھا گپیں مار رہا تھا۔ Sweeper بنچ پر بیٹھا اونگھ رہا تھا اور ماسی نجانے کہاں غائب ہوچکی تھی۔ اس نے کتاب کھولی اور ورقہ گردانی کرتے ہوئے سوچنے لگا کہ آج کیا کیا پڑھا جائے۔ جیسے جیسے شام کے سائے لمبے ہورہے تھے وارڈ میں خاموشی بڑھتی جارہی تھی۔ وہ بہت کوشش کے بعد کتاب میں غرق ہوہی چکا تھا۔ اور صرف دوبار ہی سطح پر عصر اور مغرب کی نماز ادا کرنے کے لیے نظر آیا۔ پڑھتے پڑھتے اس نے گھڑی پر نظر ڈالی خاصا وقت ہوچکا تھا اس نے سوچا کہ Night round کے ذریعے مریضوں کی بھی کچھ خیر خبر لے لی جائے۔ وہ اٹھنے ہی والاتھا کہ دروازے پر ایک سوکھی ہوئی کانٹا سی ادھیڑ عمر عورت جس کے دانت وقت سے پہلے ہی نجانے کیوں جھڑچکے تھے نمودار ہوئی۔ اسے دیکھ کر وہ سوچنے لگا کہ ہو نہ ہو۔ عورت تپ دق کی مریضہ ہے۔ ’’ڈاکٹر صاحب! زاہدہ کو کھانے میں پرہیز کیا کرنا ہے۔‘‘ وہ بولی۔
زاہدہ! بیڈ نمبر کون سا ہے؟ فوری طور پر اس کے ذہن میں مریض کا چہرہ نہیں آسکا۔ ’’وہ 21 نمبر ہے ناجی صبح آپ… اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتی وہ بولا۔
’’اوہ اچھا… وہ جس کی ٹانگوں میں Problem ہے۔‘‘ اس نے سمجھ جانے والے انداز میں گردن ہلائی اور صبح کا Round اس کی آنکھوں میں گھوم گیا۔ ’’اماں کھانے میں اس کو کچھ پرہیز نہیں کرنا سب کھلانا ہے اور خاص طور پر دودھ، انڈا، مچھلی اور تازہ پھل یہ چیزیں ضرور دینی ہیں۔‘‘
اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا، ’’خوراک کا ہی تو مسئلہ ہے سارا اس بچی کا… شاید تمہاری بیٹی ہے وہ… اس کو اچھی خوراک چاہیے۔‘‘ لیکن پھر وہ سوچنے لگا کہ کیا یہ سوکھی ہوئی عورت اس بچی کی خوراک کا مسئلہ حل کرسکے گی؟ ’’کیا کرتا ہے تمہارا شوہر؟‘‘ اس نے سوچتے ہوئے سوال کیا۔
’’پانچ سال ادھر اس کا تو انتقال ہوگیا۔‘‘ اس نے کانٹا سی عورت کا چہرہ دیکھا وہاں تاثرات میں کچھ بہت زیادہ تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ شاید وہ یہ جواب دینے کی عادی ہوچکی تھی۔ کیا اسے افسوس کا اظہار کرنا چاہیے۔ چند لمحے سوچتے رہنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ اس عورت کی مکمل کہانی سننی چاہیے۔
انوری بیگم کی جس وقت شادی ہوئی اس زمانے میں ٹی وی اتنا نہیں عام ہوا تھا اور نہ ان کی عمر اتنی تھی کہ انہوں نے زمانے کو کچھ دیکھا ہوتا اس لیے نہ ان کے خوابوں کی اڑان اتنی اونچی تھی اور نہ ہی ان کو معلوم تھا کہ ریشمی کپڑا کتنا نرم ہوتا ہے اور اس کی بہار کیسی ہوتی ہے۔ یا یہ کہ زیورات کی کتنی قسمیں اور کتنے ڈیزائن ہوتے ہیں اور قیمتی پتھر کیا ہوتے ہیں۔ یا یہ کہ میرے میں کتنی چمک ہوتی ہے اور اس کو پہنے والے کتنی بڑی جائیداد کے مالک ہوتے ہیں۔ انہوں نے تو بس اپنا آدھا کچا اور آدھا پکا گھر، اس سے باہر گلی اور گلی سے باہر محلہ اور سڑک پر ملا کی دکان بس یہی کچھ دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنے ماں باپ اور دادی کے ہمراہ 14 برس ایک نارمل زندگی گزاری تھی جس میں غربت کے معمولی مسائل ضرور تھے لیکن عزتِ نفس کو مجروح کرنے والاکوئی نہیں تھا، احساسِ محرومی سے لوگوں کے دل و دماغ چھلنی نہیں تھے، حرص وطمع کی بیماری نے اسی طرح وبا کی صورت اختیار نہیں کی تھی اور نہ ہی طبقاتی امتیاز اتنی ہولناک شکل میں سامنے آچکا تھا۔ اس وقت غریب کے لیے عزت کی روزی کے دروازے اس طرح مسلسل تیزی سے بند نہیں ہوتے جارہے تھے بلکہ محنت کا صلہ جلد یا بدیر مل ہی جاتا تھا۔ انہوں نے اپنی شادی کو ایک خوشگوار واقعے کی حیثیت دیتے ہوئے اپنے شوہر کے کچے پکے مکان کو دل سے قبول کیا اور اسے ایک پرسکون گھر بنانے کی حتی الامکان کوشش کرنے لگیں۔ ان کے شوہر ایک مقامی فیکٹری میں Store Keeper تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے افراد میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور اسی لحاظ سے وسائل اور مسائل کی آپس میں مسابقت کی رفتار میں بھی تیزی آگئی۔ ان کے شوہر نوکری کے ساتھ ساتھ رات کو ٹافیوں اور بسکٹ کا ٹھیلا بھی لگانے لگے۔ پھر جس طرح بچے تیزی سے بڑے ہونے لگے اسی طرح حالات بھی تیزی سے بدلنے لگے۔ ان کے گھر کے آس پاس کے کچھ مکان پہلے پکے ہوئے، پھر دو منزلہ اور سہ منزلہ اور پھر ان میں اینٹینا اور ڈیش اینٹینا دھرے ہوئے نظر آنے لگے۔ وہ حیران تھیں کہ جن کچھ گھروں میں پیسہ آرہا ہے تو بس آئے چلے جارہا ہے اور کچھ گھروں میں اگر غربت ہے تو جیسے اس نے راستہ دیکھ لیا ہے۔ یہ سب مقدروں کے کھیل ہیں۔‘‘ کچھ اور لوگ ٹکڑا لگاتے۔ ’’اور یہ اوپر والے کی برکت نہیں اوپر کی آمدنی کی برکت ہے۔
گھر میں آئے گئے لوگ جب اس طرح کی باتیں کرتے تو ان کے بچے پوچھتے، ’’امی یہ اوپر کی آمدنی کیا ہوتی ہے۔‘‘ اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا بتائیں۔
پھر حکومت تبدیل ہوئی، کچھ مکان مزید پکے اور اونچے ہوئے اور کچھ مزید کچے، بچے کچھ اور بڑے ہوگئے۔ آس پاس نظر آنے والے رنگ و بو کے سیلاب کو طرح طرح کی اشیا سے لدی پھندی دکانوں اور بھانت بھانت کے لوگوں اور ان کی باتوں کو دیکھتے اور سنتے اور پھر اپنی ماں سے قسم قسم کے سوالات کرتے۔ جب انوری بیگم تنگ آجائیں تو ڈانٹے مارنے پر اتر آئیں۔
ان کے شوہر بھی کچھ دنوں سے پریشان تھے کہ حکومت کی پالیسی نجانے کیسی تھی فیکٹریاں اور ملیں یکے بعد دیگرے بند ہوتی چلی جارہی تھیں اور لوگ بے روزگار ہورہے تھے۔ وہ کسی ناگہانی آفت سے پہلے کسی دوسری نوکری کی تلاش میں تھے لیکن اس سے پہلے کہ کوئی دوسری نوکری ملتی فیکٹری بند ہوگئی اور وہ بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح بے روزگار۔ اب ٹھیلہ سارے دن لگنے لگا۔ لیکن ٹھیلے کی آمدنی سے بھرے پر لے گھر کا خرچہ کیونکر چلتا ان کے ماشاء اللہ 6 بچے تھے۔ چار لڑکیاں اور دو لڑکے جو سب سے چھوٹے تھے۔ پھر غربت اور فاقوں نے زندگی کو اس بے رحم طریقے سے تلپٹ کیا کہ پہلے لڑکیوں کو اسکول سے اٹھانا پڑا اور پھر انوری بیگم کو گھبراکر گھر سے نکلنا پڑا۔ انہوں نے قریب کی ایک امیر بستی میں کسی بنگلے پر بطور نوکرانی کام تلاش کرلیا تھا۔
حکومت بدلی اور حالات تبدیل ہوئے۔ بچیوں کے قد بڑے ہوئے اور شوہر کی صحت گرتی چلی گئی وہ دن بھر ٹھیلہ چلاتے اور رات بھر کھانستے رہتے۔ ایک رات کھانستے کھانستے اچانک وہ خاموش ہوگئے۔ انوری بیگم کی آنکھ کچھ پہلے ہی لگی تھی۔ صبح وہ ان کو بیدار کرنے پہنچیں تو وہ ٹھنڈے ہوچکے تھے۔ انوری بیگم تو گویا تپتے ہوئے صحرا کی دھوپ میں اچانک گھنی چھائوں سے محروم ہوگئیں۔ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوگیا ہے اور جب سمجھ میں آیا تو ان کی چیخوں سے در و دیوار ہل گئے۔ وقت سے سے بڑا مرہم ہے سنی سنائی بات اب سچ ہوتی نظر آرہی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ شوہر کے بغیر وہ جی سکتی ہیں لیکن اب وہ جی رہی تھیں اور سوچ رہی تھیں کہ انہیں جینا پڑے گا۔ اب وہ ایک سے زائد بنگلوں میں جھاڑو برتن اور دیگر کام کاج کرنے لگیں۔ چھوٹا لڑکا گیراج میں موٹر مکینک کا کام سیکھنے جانے لگا اور لڑکیاں گھر پر پرانے اخباروں کے لفافے بنانے لگیں۔
حکومت بدلی اور ان کے تمام بچے بڑے ہوگئے نا آسودگیوں اور محرومیوں کی داستان لیے سوکھے، فاقہ زدہ جسم اور بے رونق چہروں کے ساتھ۔ ان کے بڑے بیٹے نے آوارہ لڑکوں کی صحبت میں پڑ کر سگریٹ کی لت پال لی تھی اور نجانے کہاں سے اس میں انتہا درجے کی سر کشی آگئی تھی۔ وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتا اور ہر وقت کسی نہ کسی سے لڑتا رہتا۔ وہ ڈھنگ سے کوئی کام نہ کرتا اور جس جگہ کام پر لگتا تھوڑے دنوں بعد نکال دیا جاتا۔ پھر ان پر انکشاف ہوا کہ وہ ہیروئن پینے لگا ہے۔
’’ارے کمبخت اپنی بہنوں کا ہی خیال کر لے۔ بے غیرت۔‘‘ وہ چیختیں۔
’’جواب میں وہ خاموشی سے سگریٹ کا دھواں اڑتا رہتا جس پر وہ مزید آگ بگولہ ہوجاتیں۔
’’میں کہتی ہوں تو اس سرکٹ کو چھوڑ کیوں نہیں دیتا۔ کوئی کام کیوں نہیں کرتا کچھ کماتا کیوں نہیں؟‘‘ اور پھر وہ اس کی سگریٹ چھیننے کے لیے آگے بڑھتیں۔ ’’چھوڑ دے اس کو کمبخت۔ چھوڑ دے۔‘‘ لیکن وہ اپنی سگریٹ کو بچاتا ہوا کھڑا ہوجاتا۔
’’یہ نہ چھین اماں مجھ سے۔ یہ میرا سکون ہے۔ یہ میری جنت ہے۔ یہ نہ چھین مجھ سے۔‘‘
’’ارے یہ زہر ہے تو سمجھتا کیوں نہیں۔ یہ آگ ہے نگل لے گی تجھ کو بھی اور اس گھر کو بھی۔‘‘ اور پھر وہ رونے لگتیں لیکن وہ ہر چیز سے بے نیاز ہو کہ بڑبڑاتا ہوا گھر سے نکل جاتا۔
پھر کبھی وہ دھیمے ہوکر اس کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کرلیتیں۔
’’دیکھ تو کوئی چھوٹا موٹا کام ڈھنگ سے کرے گا تو یہ گھر بنے گا۔ تیری بہنوں کی شادیاں ہوں گی۔‘‘
’’چھوٹا موٹا کام!‘‘ وہ کہتا اور عجیب انداز سے ہنسنے لگتا۔ ’’چھوٹے موٹے کام سے کچھ نہیں ہوتا اماں۔ اس گھر کو بنانے کے لیے ’بڑے کام‘ کی ضرورت ہے۔ بڑے کام کی بلکہ بڑا ہاتھ مارنے کی میں کسی دن بڑا ہاتھ ماروں گا۔‘‘ پھر وہ کسی غیر مرئی شے کو خلا میں گھورنے لگتا۔ وہ اس کی باتوں کو اول فول قرار دیتی ہوئی تھک کر اٹھ جاتیں۔ پھر یوں ہوا کہ اس نے گھر آنا کم کردیا کئی کئی دن گھر نہ آتا اور جب آتا اس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب ہوتی۔ وہ چیخ سکتی تھیں، رو سکتی تھیں لیکن اس کے پیچھے کہاں تک بھاگتیں کہاں تک اس کی نگرانی کرتیں بالآخر اس کو بھی اپنے نصیب کا لکھا جان کر صبر کے گھونٹ پی کر رہ گئیں۔
حکومت بدلی اور وہ سوکھ کر بنجر رہ گئیں۔ رات کو تھکی ہاری باسی کھانے لیے جب وہ گھر لوٹتیں تو تپتے ہوئے جسم کے ساتھ بستر پر پڑی کھانستی اور کراہتی رہتیں۔ جب ان کی کھانسی بڑھی تو وہ خوفزدہ ہوگئیں کہ اگر وہ بھی مرگئیں تو ان کی بچیوں کا کیا ہوگا۔ کہہ سن کر سرکاری ہسپتال پہنچیں تو تپ دق تشخیص کرکے انہیں 9 مہینے کی دوائیاں اور بہتر خوراک کا مشورہ دے دیا گیا۔ بہتر خوراک تو کیا ملتی۔ دوا کھا کر گھر پر پڑ رہیں۔ بڑی بیٹی نے ضد کرکے کچھ دن ان کو گھر پر روک لیا اور اپنے سے چھوٹی بہن کو کام پر بھیج دیا۔ زاہدہ جب بنگلے میں کام پر پہنچی تو اس دن اتفاق سے وہاں کسی تقریب کا اہتمام ہورہا تھا۔ گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ کچھ تو تقریب کے انتظامات کے سلسلے میں لوگوں کی بھاگ دوڑ اور بہت کچھ Enjoyment کے نام پر نوجوانوں کی دھما چوکڑی کی وجہ سے ایک افراتفری کا عالم تھا۔ اس اجنبی ماحول میں ڈری سہمی ہوئی زاہدہ نے جب پہنچ کر مالکن سے اپنا تعارف کروایا تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگئیں۔
’’کہاں مرگئی تمہاری اماں۔ دو دن سے غائب ہے گھر میں اتنا کام پڑا ہے اسے پتا بھی تھا کہ ارم کی منگنی ہے گھر میں کام ہوگا۔ عین وقت پر غائب ہوگئی۔‘‘ مارے غضب کے ان کا سانس پھولنے لگا۔
’’وہ جی امی کی طبیعت خراب تھی کل ہم انہیں ہسپتال بھی لے گئے تھے۔‘‘ وہ جیسے کسی درخت کی کھوہ میں بیٹھی بول رہی تھی۔
’’سب کام سے بھاگنے کے بہانے ہیں ارے کام نہیں ہوتا تو گھر میں بیٹھو یا کوئی اور جگہ دیکھو ہمیں کیوں مشکل میں ڈالتی ہو۔‘‘ وہ کچھ رکیں ’’میں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں دو دن کی تنخواہ کاٹوں گی۔‘‘ پھر ان کا روئے سخن اپنی نند کی طرف ہوگیا۔ بولیں، ’’لو بھلا بتائو۔ آئے دن چھٹیاں کریں گی کبھی پڑوس میں میت ہوگئی، کبھی بیٹی بیمار ہوگئی، کبھی کسی کے ہاں بچہ ہوگیا۔ میں نے کیا مفت میں تنخواہ دینے کے لیے رکھا ہوا ہے۔‘‘ وہ پھر زاہدہ کی طرف متوجہ ہوکر اسے ایسے گھورنے لگیں جیسے کھا ہی تو جائیں گی اور زاہدہ اس وقت شرم اور ذلت کے احساس سے زمین میں گڑی جاہی تھی۔ ’’اب دفعان ہو کچن میں۔ ڈھیروں کام پڑا ہے۔ آج تمہیں رات تک یہاں رکنا پڑے گا۔‘‘ وہ دھاڑیں اور ساتھ ہی اوور ٹائم لگانے کا حکم بھی صادر فرما دیا۔
زاہدہ اپنے آنسو پیتی ہوئی کچن میں چل دی۔ ایک تو بالکل اجنبی ماحول اور اجنبی لوگ پھر اس پر سے بالکل نیا کام جس کا اسے تجربہ نہ تھا اس پر مستزاد مالکن کا رویہ۔ وہ تو اس قدر دل گرفتہ تھی کہ بس نہیں چل رہا تھا گھر بھاگ جائے اور کمر بند کرکے دھاڑیں مارمار کر روئے۔
تقریب کے انتظامات، کھانے کے لوازمات اور خواتین کے ملبوسات و زیورات دیکھ کر تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ حیرت و حسرت سے ایک ایک لڑکی کی ڈریسنگ اور جیولری تکا کرتی اور سوچتی کہ کیا کوئی ایسا دن اس کی زندگی میں آسکتا ہے جب یہ سب کچھ اسے بھی میسر ہو؟ لیکن اپنے چشمِ تصور سے بھی اسے اپنے مستقبل کے نقشے میں کچا پکا مکان، تنگ و تاریک ابلتی نالیوں والی گالیاں، لنڈے کے کپڑے اور ہر مال دو روپیہ سے خریدے گئے گھٹیا ہار بندے ہی نظر آتے۔ وہ مایوس ہوجاتی اور اپنا ذہن جھٹک کر کام میں دل لگانے لگتی۔
رات تھکی ہاری تقریب کا بچا کھچا ہوا کھانا لے کر جب وہ گھر پہنچی تو چھوٹے بہن بھائی کھانے پر جیسے ٹوٹ ہی تو پڑے کہ ان کے لیے تو یہ اعلیٰ ترین کھانا تھا۔ وہ سارے دن کی بھوکی ہونے کے باوجود ایک لقمہ بھی نہ توڑ سکی اور چپ چاپ جاکر اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ وہ جو کچھ دیکھ کر آئی تھی اس سب کے بعد اسے اپنے بہن بھائیوں کی یہ مسرت بہت حقیر لگی۔ شاید اس کے خوابوں کی اڑان اب بلند ہوگئی تھی۔ یا شاید وہ بنگلے والوں کے رویے سے دل گرفتہ تھی یا شاید کام کی زیادتی سے وہ تھک گئی تھی اسے خود بھی صحیح طرح اپنے دل کی حالت سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ بڑی بہن شاہدہ نے کاص طور پر اس کی بدلی ہوئی کیفیت نوٹ کی وہ آکر اس کے سرہانے بیٹھ گئی اور سر پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
’’کیا ہوا زاہدہ۔ کھانا کیوں نہیں کھاتیں کیا کھا کر آئی ہو۔‘‘
’’ہاں…‘‘ اس نے جواب دیا اور سوچنے لگی کہ ڈانٹ اور پھٹکار کھاکھا کر میرا پیٹ تو بھر ہی گیا ہے۔
’’کیا بہت تھک گئی ہو؟‘‘ اس نے سوال کیا پھر خود ہی جو اباً بولی، ’’خیر یہ سوال تو فضول ہے کام تو واقعی وہاں بہت ہوگا آج منگنی جو تھی کل تم سائرہ (چھوٹی بہن) کو ساتھ لے جانا امی تو ابھی کچھ دن اور نہیں جاسکیں گی۔‘‘ وہ بالکل چپ چاپ لیٹی چھت کو تکتی رہی۔
’’کیا بات ہے زاہدہ تم بہت چپ چپ ہو؟‘‘ شاہدہ کو اس کی خاموشی سے وحشت ہونے لگی۔
’’کوئی بات نہیں ہے آپا… کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہا اور پھر رو پڑی۔ شاہدہ نے اسے لپٹا لیا اور اس کے رونے کی وجہ اصرار کے ساتھ پوچھنے لگی لیکن وہ اسے کچھ بھی تو نہیں بتا سکی۔ دور لیٹی ہوئی انوری بیگم بہت کچھ جانتے ہوئے انجان بننے کی کوشش کرتے ہوئے سوتی بن گئیں۔ وہ جانتی تھیں کہ زاہدہ کے رونے کی وجہ کیا ہے پھر وہ اس سے کیا پوچھتیں۔ اگر وہ کچھ پوچھتیں بھی تو جواباً زاہدہ کے پاس ایسے سوال ہوتے جن کا جواب انوری بیگم کے پاس نہیں تھا۔
ایک اور حکومت بدلی۔ انوری بیگم کے بڑے بیٹے کی ہیروئن کی لت چھوٹ نہیں سکی۔ چھوٹے بیٹے نے پڑھائی یکسر ترک کرکے موٹر مکینک کے ہاں کل وقتی نوکری کرلی اور ایک دن ’چھوٹے‘ سے بڑے ہوکر ’استاد‘ بننے کے خواب دیکھنے لگا کہ جب اس کے پاس اپنی ورکشاپ ہوگی اور اس کے پاس بھی کچھ ’چھوٹے‘ ملازم ہوں گے۔ چاروں بہنیں گھر میں لفافے بناتیں اور فروخت کرتیں، گھروں پر کام کاج کرتیں اور ڈانٹ پھٹکار کھاتیں، اچھے دنوں کی آمد کا انتظار کرتیں اور خوابوں کی اونچی نیچی اڑان اڑتیں زندگی کے دن گزارتی رہیں۔ لیکن زاہدہ نجانے کیوں بہت چپ چپ ہوگئی تھی۔ گھر میں پکنے والامعمولی کھانا یا بنگلوں سے آیا ہوا باسی اور ’اعلیٰ‘ کھانا اسے کچھ اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ چند لقمے زہر مارکرتی اور بستر پر پڑی رہتی۔ ایک روز اسے بڑا شدید بخار چڑھا۔ کچھ روز بعد بخار تو اتر گیا لیکن کمزوری میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔ اس کی ٹانگوں میں شدید درد رہنے لگا وہ زیادہ چل نہ پاتی اور جلد تھک جاتی۔ بنگلوں پہ جاکر کام کرنا اس نے ترک کردیا اور گھر پر بیٹھی بیٹھی لفافے بنانے لگی۔ وہ ٹانگیں موڑے ہوئے بیٹھتی تھی۔ کھڑے ہونے میں اسے خاصی تکلیف ہوتی تھی اور گھٹنے درد کرنے لگتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس کی ٹانگیں مڑسی گئیں اور وہ بالکل معزور ہوکر بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔
انوری بیگم کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے وہ دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی اٹھیں اور اپنی زاہدہ کے بہتر علاج کی درخواست کرتی ہوئی باہر چلی گئیں۔ اختر کرسی پر جما کا جما رہ گیا تھاوہ خواہش کے باوجود انوری بیگم کو تسلی دلاسے کا ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکا۔
دوسرے دن کال بھیج کر Neurology والوں کو بلوایا گیا انہوں نے معائنہ کیا اور آستیوملیشیا (Osteomalacia) تشخیص کرکے علاج پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اختر ڈیوٹی آف کرکے گھر پہنچا تو بھی اسے ہر وقت انوری بیگم اور زاہدہ کا خیال ستاتا رہا۔ اس نے سوچا کہ ان کی کچھ نہ کچھ مدد ضرور کرنی چاہیے۔ دوسرے دن بھی اس کی Night duty تھی وہ ہسپتال پہنچا اور Male ward کا رائونڈ کرکے ڈیوٹی روم میں جا بیٹھا۔ آج بھی وارڈ کانان ایمرجنسی ڈے تھا۔ اس نے فون کا پلگ نکالا اور کتاب کھول کر ورق گردانی کرنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ’یہ تو بہت مشکل ہے کہ زاہدہ بالکل ٹھیک ہوجائے اور اگر یہ تھوڑی سی بھی Defective رہی تو اس کا کیا ہوگا؟‘‘ اس نے کتاب کا ایک اور ورق الٹا ’’اگر زاہدہ اس حال کو پہنچی تو اس میں کس کا کتنا قصور ہے۔ ہمارے معاشرے کا کتنا اور ہماری حکومت کا کتنا؟‘‘ طرح طرح کے سوالیہ نشان اسے کتاب میں ناچتے ہوئے نظر آنے لگے۔ اس نے کتاب بند کی اور Female ward کے رائونڈ کے لیے چل دیا۔ بہت سے مریض سو رہے تھے اور ان کے تیماردار بھی بستر کے ساتھ ہی زمین پر دریاں بچھائے یا تو سو رہے تھے یا بینچ پر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ بیڈنمبر 20 پر پڑے ایک بچے کی دادای البتہ پاندان سامنے رکھے ایک پان کھا رہی تھیں اور دوسرے پان کے لیے چھالیہ کتر رہی تھیں۔ اس نے دیکھا انوری بیگم بینچ پر بیٹھی مسلسل ایک طرف دیکھ رہی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں اپنے کرب ناک ماضی اور مستقبل کی فکر سے متعلق ان ان گنت سوال تھے۔ ان کی نگاہوں کے تعاقب میں اختر کی نگاہ بستر پر پڑی ہوئی زاہدہ پر پڑی۔ وہ سورہی تھی۔ پژمردہ اور سوکھی ہوئی زاہدہ۔ سوتے ہوئے اس کا جسم خم کھا گیا تھا۔ جسم کے ساتھ جڑی مڑی ہوئی ٹانگوں نے اس کو ایک ’’سوالیہ نشان‘‘ کی صورت دے دی تھی۔

ڈاکٹر جمال ناصر راولپنڈی میڈیکل کالج کے میڈیکل گریجویٹ ہیں۔ پیتھالوجی میں اسپیشلائزیشن کی اور ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی میں پتھالوجسٹ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ نے ملازمت کو سماجی کاموں میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے 15 جنوری 2001 کو استعفیٰ دے دیا۔ ایک صاحبزادے علی مراد جمال راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس (فورتھ ایئر) کے اسٹوڈنٹ ہیں، جب کہ آپ کی دو صاحبزادیاں محترمہ تابدار جمال اور محترمہ سارہ جمال بھی ڈاکٹر ہیں اور ان دنوں FCPS کا کورس کررہی ہیں۔
ڈاکٹر جمال ناصر ہیپا ٹائٹس بی اور سی کو پاکستانی قوم کے لیے ایک مہلک مرض سمجھتے ہوئے کئی سالوں سے اس موذی مرض کے خلاف کام کررہے ہیں۔ آپ اس مرض کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے واکس، سیمینارز اور کانفرنسز کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ آپ گزشتہ کئی برسوں سے تسلسل کے ساتھ ’’لیورہائیکس‘‘ (Liver Hikes) کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں، امسال اس سلسلے کی 28 ویں سالانہ واک منعقد کروائی۔
ایک رفاعی تنظیم ’پاکستان گرین ٹاسک فورس‘ کے صدر ’قمر جہاں فائونڈیشن‘ کے چیئرمین بھی ہیں، ’پاکستان گرین ٹاسک فورس‘ نامی تنظیم کا نعرہ ’پاکستان کو صاف، سرسبز و شاداب بنانا‘ہے۔ جب کہ ’قمر جہاں فائونڈیشن‘ کے تحت عوامی فلاحی کام کیے جارہے ہیں۔
ڈاکٹر جمال ناصر مری روڈ راولپنڈی پر ’’سٹی لیب‘‘ کے نام سے ایک پرائیویٹ پیتھا لوجیکل لیبارٹری چلا رہے ہیں جو کہ ایک State of the Art ISO Certified لیب ہے۔ سٹی لیب میں ہزاروں غریب اور نادار افراد کے مفت میڈیکل ٹیسٹ ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر جمال ناصر کمشنر ریسورسز پنجاب بوائے اسکائوٹس ایسوسی ایشن، صدر ہیلتھ اینڈ لیبارٹریز کمیٹی راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، ممبر نیشنل ایمیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ (NITAG)، ممبر ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ ایولویشن کمیٹی راولپنڈی میڈیکل کالج اینڈ الائیڈ ہاسپٹلز، کونسلر سوسائٹی آف گیسٹرو انٹرولوجی اینڈ لیور (فیڈرل)، ایگزیکٹیو ممبر کمیٹی (ریمکاف) راولین اوورسیز فائونڈیشن اور ممبر کانسٹی ٹیونسی انسپکشن کمیٹین اسلام آباد راولپنڈی کے طور پر بھی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔
ڈاکٹر جمال ناصر پیدائشی مسلم لیگی ہیں آپ کے خاندان کی تحریک پاکستان کے لیے خدمات بھی تاریخ کا حصہ ہیں، قیام پاکستان کے بعد سے اب تک تقریباً 70 برس سے ان کا خاندان مسلم لیگ سے وابستہ ہے۔ آپ کے دادا چودھری برکت علی نے تحریک خلافت کے دوران مولانا محمد علی جوہرؒ اور مولانا شوکت علیؒ کے ساتھ ایک سرگرم کارکن کے طور پر کام کیا۔ آپ کے تایا ظہور احمد ظہور نے برصغیر کے مسلمانوں کو فرنگی سامراج سے نجات دلانے اور ایک الگ مسلم ریاست بنانے کی جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کیا انہیں انڈیا میں ’فریڈم فائیٹر‘ کے خطاب بھی ملا۔ آپ کے والد بزرگوار نثار احمد نثار نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ اور 1964 کی لوکل گورنمنٹ میں بی ڈی ممبر رہے۔ انہیں ایوبی دور میں صدارتی انتخاب کے دوران محترمہ فاطمہ جناحؒ کے تجویز کنندہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔
معزّز قارئین، السّلامُ علیکم
آج ہمارا معاشرہ جس انحطاط کا شکار نظر آتا ہے اُس کا سبب تعلیم کا فقدان اور علم و اَدب سے دُوری ہے، اور یہ دُوری صرف اِس بنا پر پیدا ہوئی کہ ہم باہم رواداری، تحمل اور برداشت جیسے اوصاف سے بڑی حد تک دست کش ہوچکے ہیں۔ یہ صُورتِ حال یقیناً تشویش ناک ہے اور اِس کے ازالے کے لیے ہم کو ایسے اخلاقی پیمانے معاشرے میں متعارف کرانا ہوں گے جو بُرائی کے حریف اور اچھائی کے حلیف ہوں۔ جس کے نتیجے میں آج کا معاشرہ اخلاقی ابتری اور عدم برداشت کا شکار ہے اور تحمل اور رواداری جیسے اوصاف سے عاری نظر آتا ہے۔
فارمیو و پرائیویٹ لمیٹڈ نے اپنے قیام ہی سے جہاں دوائوں کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے وہیں علمی اور اَدبی سرگرمیوں کے ذریعے ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر و ترقّی کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کوشش کی ہے۔ کیوں کہ صحت مند معاشرے کی ایک بڑی پہچان یہ بھی ہے کہ اُس کا اَدب تخلیقی معیار کے ساتھ سنجیدہ اور تعمیری ہوتا ہے۔
فارمیوو نے اِس ضمن میں جس ’’ادبی سوسائٹی‘‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا اُس کی آپ کی جانب سے جو پذیرائی کی گئی وہ حوصلہ افزا ہے۔ اس سوسائٹی کے زیرِ اہتمام ایک سہہ ماہی میگزین ’’جہانِ مسیحا‘‘ کے اجرأ کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ الحمدللہ اِس میگزین کا آٹھواں شمارہ آپ کے سامنے ہے جس میں بالخصوص طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے قلم کاروں کی تخلیقات کو حسبِسابق اہمیت دی گئی ہے۔ یقیناً یہ تخلیقات آپ کے ذوق کی تسکین کا باعث ہوں گی۔
اِس مرحلہ پر ہماری آپ سے استدعا ہے کہ آپ ’’جہان مسیحا‘‘ میں شامل تخلیقات کے حوالے سے اپنی آرأ ہم کو ارسال کریں تاکہ ہم آپ کی آرأ کی روشنی میں ’’جہانِ مسیحا‘‘ کو مزید معیاری بنا سکیں۔
صرف آرأ ہی نہیں۔ آپ کی تخلیقات کا بھی ’’جہانِ مسیحا‘‘ منتظر ہے۔
اپنی نگارشات درجِ ذیل پتے پر ارسال کیجیے۔